حزب اختلاف میں وسیع تر اتفاق کے بغیر جمہوری جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی


پاکستان میں جس وقت سیاسی ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرکے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتحاد و اشتراک تو دورکی بات ہے، اپوزیشن جماعتیں بھی باہم دست و گریباں ہیں۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی دیکھنے میں آیا جب پیپلز پارٹی نے اس متفقہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے کہ مسلم لیگ (ن) وزیر اعظم کا امید وار کھڑا کرے گی، اس کے امید وار شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اب صدر کے انتخاب کے معاملہ میں بھی یہ انتشار کھل کر سامنے آرہا ہے۔ مری میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے مشترکہ امید وار پر متفق ہونے کے لئے کل تک کی مہلت مانگی ہے۔ اگرچہ یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ کل مشترکہ امیدوار سامنے لایا جائے گا لیکن حالیہ تجربات کی روشنی میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ اپوزیشن کی چھوٹی جماعتیں اگرچہ اتحاد چاہتی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں شخصیات اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے مشکل پیدا ہو رہی ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ ابھی تک یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے جمہوری نظام کو حقیقی معنوں میں عوامی بنانے کے لئے سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے وسیع تر سیاسی و جمہوری اصولوں کے لئے تعاون کی بنیاد رکھنی چاہئے ۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک کے عسکری ادارے ایک خاص طریقے سے جمہوری نظام اور منتخب حکومتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پالیسی سازی کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دان بار بار کے تجربات کے باوجود ابھی تک پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے اور تمام اہم قومی امور پر قومی اسمبلی میں مباحث کے بعد فیصلے کرنے کی روایت کو مستحکم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کا اعلان کرتے ہوئے بر سر اقتدار آئی ہے۔ گو کہ عمران خان کے پاس کوئی نیا منشور یا ایسا پارٹی پروگرام نہیں ہے جو قومی احیا کے عظیم منصوبہ کی بنیاد بن سکے۔ لیکن عوام نے انہیں تبدیلی کے نام پر ووٹ دئیے ہیں۔

تحریک انصاف اس تبدیلی کو نیا نظام متعارف کروانے اور پرانی سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کو مسترد کرنے کے نام سے معنون کرتی ہے لیکن عام شہری نے تحریک انصاف کی طرف رجوع کرتے ہوئے دراصل ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت، حکمت عملی اور طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان کو ووٹ دینے کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ عام لوگوں نے نیا چہرہ سمجھتے ہوئے ان سے توقعات باندھ لی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جو خواہشات سابقہ حکومتیں باہمی اختلافات کے سبب پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں ، ایک نئی جماعت اور نیا لیڈر شاید انہیں پورا کرسکے۔ اس لئے انتخابی مہم کے دوران یہ بات سننے میں آتی رہی ہے کہ اگر باقی پارٹیوں کو موقع ملتا رہا ہے تو اب عمران خان کو ایک موقع دینے میں کیا حرج ہے۔ گو کہ کوئی ملک سیاسی تجربہ گاہ نہیں ہوتی اور ’آخر عمران خان کو ایک موقع دینے میں کیا حرج ہے ‘ کا نعرہ سیاسی عدم شعور کے علاوہ مایوسی کا پیغام بھی ہے۔ یہ پیغام ملک کی جمہوریت کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے اور قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ایک افسوسناک اشارہ ہے۔ ملک کی سب سیاسی قوتوں کو اس اشارے کو سمجھتے ہوئے صورت حال کی تبدیلی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان حالات میں ذمہ داری اور حب الوطنی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اقتدار تک پہنچنے والی اور اس میں ناکام رہنے والی سب سیاسی قوتیں معاملات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے ماضی سےسبق سیکھتیں اور سیاسی تعاون کا ایک نیا باب رقم کرنے کے لئے سیاسی احترام ا ور قومی مفاد کی بنیاد پر پارٹی ضرورتوں سے بالا تر ہو کر تعاون کی روایت کو راسخ کرنے کے لئے کام کا آغاز ہوتا۔ تاہم یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے اگر جیتنے والی پارٹی یعنی تحریک انصاف یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہو کہ اسے اگر غیر متوقع طور پر کثیر تعداد میں ووٹ ملے ہیں تو اس کا مطلب اس پارٹی پر اعتماد سے زیادہ سابقہ حکمران پارٹیوں پر عدم اعتماد ہے۔ اور ہارنے والی بڑی پارٹیاں یہ مان لیں کہ دھاندلی کا سیاسی نعرہ اپنی جگہ اہم ہو سکتا ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک نئی سیاسی قوت کو حکومت کا موقع دیا ہے کیوں کہ یہ دونوں پارٹیاں اپنے دور حکومت میں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں۔ ووٹروں کی مزاج شناسی کا یہ معاملہ نہایت باریک نکتہ ہے جو بڑے بڑے سیاسی مباحث اور بلند بانگ دعوؤں کے آہنگ میں گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ اقتدار سنبھالنے والی پارٹی دوسری پارٹیوں کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے اب پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کا کام کرے اور اپوزیشن اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت کی تنقید کے علاوہ اس کے ساتھ تعاون کی نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کرتیں۔ تاکہ ماضی کی غلطیوں کا تدارک ہوسکے۔ لیکن اقتدار سنبھالنے والی اور اپوزیشن میں رہ جانے والی پارٹیاں یکساں طور سے اس مقصد میں ناکام ہو رہی ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف ابھی تک مسلم لیگ (ن) مخالف بیانیہ تبدیل کرنے اور افراد سے بلند ہو کر معاملات کو دیکھنے کے قابل نہیں ہو پا رہی۔ اب بھی اہم حکمران شخصیات سابقہ حکومت اور نواز شریف کو مطعون کرکے اپنا کام آسان کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کے لئے تو دوسروں کی کمزوریوں کو عیاں کرنا کسی حد تک معاون ہو سکتا ہے لیکن حکومت کے طور پر کامیابی کے لئے کارکردگی دکھانے اور پرانے طریقے تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اسی طرح اپوزیشن یہ واضح ہونے کے بعد کہ تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے ، بحران میں گھرے اس ملک میں مثبت پارلیمانی روایت کا آغاز کرتی اور عمران خان کو متفقہ طور سے وزیر اعظم منتخب کرلیا جاتا۔ مخالف سیاسی لیڈر کو اعتماد کا ووٹ دینے سے خیر سگالی کا یہ واضح پیغام سامنے لایا جاسکتا تھا کہ اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں اب سن بلوغت کو پہنچ چکی ہیں اور وہ تحریک انصاف کی اکثریت کا احترام کرتی ہیں لیکن اگر حکومت اعلان شدہ مقاصد سے درگزر کرے گی تو اس کی گرفت کی جائے گی۔ اس طرح اقتدار سنبھالنے والی پارٹی کو بھی یہ احساس ہوجاتا کہ اپوزیشن نے بھی ان کے امید وار کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے اس لئے اسے سیاسی ایجنڈا پر عمل کرتے ہوئے مخالف سیاسی رائے پو غور کرنا چاہئے۔ اس رویہ سے آزاد ارکان کو پرچانے اور چھوٹی جماعتوں کو سیاسی رشوت کے طور پر وزارتیں دینے کا افسوسناک اقدام بھی نہ کرنا پڑتا۔ سیاسی قوتوں کے اس اشتراک سے وہ غیر منتخب قوتیں کمزور پڑتیں جن پر جمہوری عمل میں دخل اندازی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کا گرینڈ الائینس خود اپنی صفوں میں ہی اتحاد قائم نہیں رکھ سکا۔ شہباز شریف کی مخالفت میں پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کی صفوں میں انتشار کو واضح کردیا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کے معاون شریک چئیرمین آصف زرداری بخوبی جانتے ہیں کی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور سیاسی بیانات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دشمنیاں پالنا دانشمندی نہیں۔

آصف زرداری پر منی لانڈرنگ کے متعدد معاملات کے حوالے سے عدالتوں اور حکومتی اداروں کا شدید دباؤ ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کے واک آؤٹ کو بھی اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کی آصف زرداری مقتدر حلقوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی بچھائی گئی بساط کو پلٹنے کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس طرح انہیں امید ہے کہ سندھ میں ان کی حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں ہوں گے اور مختلف مقدمات میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ریلیف مل سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن سے مشورہ کئے بغیر صدارت کے لئے اعتزاز احسن کے نام کا اعلان کردیا حالانکہ وہ تن تنہا صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تاہم وہ ’گیم خراب ‘ ضرور کرسکتی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) بھی اعتزاز احسن کے بارے میں وہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے جو پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کے بارے میں کیا تھا۔ ان سے نواز شریف سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مری میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ اتوار تک مشترکہ امید وار لایا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن لیڈر شیری رحمان کو تبدیل کر کے راجہ ظفر الحق کو اس پوزیشن پر لانے کے لئے کام کا آغاز کرچکی ہے۔ سیاسی بد اعتمادی کے اس ماحول میں صدارتی امیدوار کا معاملہ قومی اہمیت کا سوال بننے کی بجائے پارٹی پوزیشن مستحکم کرنے کا ہتھکنڈا بن چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اعتزاز احسن کی حمایت کر کے اپنی پوزیشن کمزور نہیں کرنا چاہے گی اور پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کا نام واپس لے کر یہ ظاہر نہیں کرسکتی کہ اس نے ہار مان لی ہے۔ ہار جیت چونکہ شخصیات اور گروہی مفادات کے لئے اہم ہوچکی ہے اس لئے کھینچا تانی میں اضافہ بھی شدید تر ہوچکاہے۔ ہو سکتا ہے اپوزیشن مشترکہ صدارتی امیدوار پر متفق ہوجائے لیکن سیاسی پارٹیوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کی کوئی مثبت کوشش دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ ملک کے سیاسی ، معاشی اور سفارتی بحران میں سیاسی عدم اعتماد کی بجائے باہمی اعتماد سازی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

سیاسی اقتدار میں غیر منتخب اداروں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کا واحد راستہ ملک کی سیاسی قوتوں کے اتحاد اور باہمی اعتماد و احترام سے ہو کر گزرتا ہے۔ حکمران جماعت سمیت سب سیاسی پارٹیاں اور گروہ جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک وہ اپنی اپنی جگہ پر اپنے مفادات اور ضرورتوں کے اسیر بن کر انہیں قوتوں کے ہرکارے بنے رہیں گے جن کی مداخلت کو جمہوریت کے لئے المیہ قرار دیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali