مولانا فضل الرحمان کو صدر بنایا جائے


اپوزیشن جماعتیں مصیبت میں پڑی ہوئی ہیں کہ صدر کسے بنائیں۔ تحریک انصاف کے ووٹ پہلے ہی زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی دندان شکنی کے ماہر مانے جاتے ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے کوئی امیدوار بلا جبر و اکراہ ان کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں دکھائی دیتا۔ اوپر سے اپوزیشن میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ باقی سب جماعتوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اختیار دے دیا ہے کہ جسے چاہیں نامزد کر دیں لیکن پیپلز پارٹی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے کھڑی ہے۔

قومی اسمبلی کے سپیکر کے انتخابات کے لئے طے ہوا تھا کہ ساری اپوزیشن اپنے مشترکہ امیدوار لائے گی۔ سپیکر کے لئے پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اور وزیراعظم کے لئے نون لیگ کے شہباز شریف کا نام فائنل ہوا۔ پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ کے لئے تو نون لیگ کا ووٹ لے لیا مگر شہباز شریف کو ووٹ دینے کی باری پر روٹھ گئی اور ووٹ دینے سے انکاری ہوئی۔ کرکٹ میں ایسا ہو کہ کوئی لڑکا اپنی باری لے کر دوڑ جائے تو باقی سب بہت برا مانتے ہیں اور آئندہ اس کے ساتھ کھیلنے سے کتراتے ہیں۔ اس لئے نون لیگ کی ناراضگی جائز دکھائی دیتی ہے۔

اب پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو صدر کا امیدوار بنا دیا ہے تو نون لیگ روٹھی بیٹھی ہے۔ کہتی ہے کہ ہم سے پوچھے بغیر کیسے پیپلز پارٹی نے امیدوار کھڑا کر دیا ہے۔ اعتزاز احسن سے نون لیگ والے خاص طور پر ناراض ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ نون لیگ کے متعلق الٹے سیدھے بیانات دے رہے تھے۔

اب ان کا نام آیا ہے تو پرویز رشید نے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے اعتزاز احسن جیل جائیں اور نواز شریف سے معافی مانگیں، اس کے بعد ہی ان کے نام کو قبول کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بھلا ایک سینئر وکیل کو کیسے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی شق نکال کر خود کو بچا لے گا۔ ویسے بھی دیگر نوجوان قیادت کی طرح اعتزاز احسن کی اتنی زیادہ عمر ہو چکی ہے کہ جیل جاتے ہی ان کو بھی سیدھا ہسپتال جانا پڑے گا۔ یعنی ان کا جیل جانا ممکن نہیں ہے۔

اب چند ممکنات ہیں۔ مثلاً پرویز رشید کو صدارتی امیدوار بنا دیا جائے۔ لیکن اس نام پر پیپلز پارٹی کے علاوہ لڑکی کے بھائی بھی نہیں مانیں گے۔ یا پھر رضا ربانی کو صدر بنا دیا جائے۔ اس پر آصف زرداری نہیں مانیں گے۔ لیکن اپوزیشن کسی بھی قیمت پر یہ نہیں چاہے گی کہ تحریک انصاف اپنا دندان شکن صدر لا کر اسے ایک مستقل خوف میں مبتلا رکھے۔

ہماری رائے میں اس صورت حال میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو اپنے اپنے امیدوار سے دستبردار ہو کر ہمارے مرشد مولانا فضل الرحمان کا نام بطور صدر تجویز کر دینا چاہیے۔ مولانا سب رنگ آدمی ہیں۔ بوڑھوں میں ہوں تو بوڑھے دکھائی دیتے ہیں، نوجوانوں میں ہوں تو لگتا ہے کہ وہ ابھی لڑکپن کی منزل سے گزر رہے ہیں، بچوں میں ہوں تو بچے ان کو اپنا ساتھی قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں بھی یہی حال ہے۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ، ایم کیو ایم حتی کہ جماعت اسلامی تک کو ان میں اپنا جانثار اتحادی دکھائی دیتا ہے۔

خارجہ محاذ پر بھی ان کی بھاری بھرکم شخصیت سب علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کو خوب پریشان رکھے گی۔ جب بھارت میں وہ خطاب کریں گے تو پردھان نریندر مودی پر خوف طاری ہو گا کہ دیوبند کا ایک بڑا عالم اس کے سامنے ہے جس کی بہت زیادہ سپورٹ ہندوستان میں موجود ہے۔ جب افغانستان جائیں گے تو صدر اشرف غنی پریشان دکھائی دیں گے کہ دلیل کی طاقت سے مسلح اس شخص کو انکار کیسے کریں۔ جب امریکہ جائیں گے تو صدر ٹرمپ کو پتہ چلے گا کہ ہر سیر کا سوا سیر بھی ہوتا ہے۔

قصر صدارت میں وہ سجیں گے بھی بہت۔ جب وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدارتی خطاب کیا کریں گے تو اپوزیشن کا دل جیت لیں گے اور حکومت سے ایسی شفقت سے پیش آئیں گے کہ اسے سمجھ نہیں آئے گی کہ مولانا اس سے اردو محاورے میں محبت کر رہے ہیں یا انگریزی میں۔ یعنی اپوزیشن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور حکومت کا سر کڑاہی میں ہو گا۔ کیا اپوزیشن کو اس سے زیادہ بھی کسی چیز کی تمنا ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar