یہاں کوئی مظلوم نہیں


تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام و قائدین جب بھی میڈیا پہ یا سیاسی و انتظامی فورمز پہ لب کشا ہوتے ہیں تو اتحاد بین المسلمین، فقہی رواداری، بین المسالک ہم آہنگی اور دیگر بھاری بھرکم اصطلاحات کے ساتھ کمال منافقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے دل ہی دل میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں

بات اپنے فقہہ یعنی فقہ جعفریہ سے شروع کروں گا۔ اہل تشیع اپنی مظلومیت کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور کسی بھی ٹارگٹ کلنگ یا دھماکے کے بعد ہر دستیاب فورم پہ جوش و خروش سے اپنی مظلومیت کا بھرپور تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن کم یہ بھی کسی سے نہیں۔ اپنی نجی محافل ہی نہیں جلسہ جلوس، مجالس و دیگر اجتماعات میں گھما پھرا کے، بین السطور یا گاہے براہ راست اکابرین اہلسنت پہ دشنام طرازی، طعن و تشنیع اور اپنے فقہ کی حقانیت اور دوسرے فقہات کو باطل ثابت کرنا ذاکرین کا ہی نہیں علماء کرام کا بھی محبوب مشغلہ ہے اور مجالس پہ جانے والی اکثریت انہی نکتہ آفرینوں کی سماعتی لذت کا شکار ہے۔ علماء و ذاکرین بھی اپنے ہر ایسے جملے کی ٹھہر ٹھہر کر داد طلب کرتے ہیں۔

اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اب سیاست ہو یا معاشرت، ہر معاملے کو شیعیان حیدر کرار کی اکثریت حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے تناظر میں دیکھتی ہے جس میں حق اور حسینیت ظاہر ہے اسی جانب ہے کہ جس طرف ”مومنین“ ہیں۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ دوسروں کے خلفا پہ تنقید کا حق جtانے والے فقہ جعفریہ کے مطابق بھی ان کے امام زمانہ و دیگر آئمہ کرام پہ سب و شتم کرنے والا واجب القتل ہے۔ بہرحال، وجوہات سے قطع نظر، دہائیوں سے مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا شکار یہ مکتبہ فکر کئی حوالوں سے واقعی مظلوم ہے

بریلوی مکتب فکر بڑی حد تک پر امن اور کشادہ دل تھا۔ کسی کو چھیڑو نہیں اپنا چھوڑو نہیں ایک طویل عرصہ تک ان کا اصول رہا۔ اگرچہ فقہی معاملات میں یہ بھی کسی سے کم نہیں تھے اور معمولی فروعی اختلافات میں بھی ہر دوسرے فقہ دوسرے فقہ کی طرح اپنی تعبیرات پہ مصر تھے لیکن صوفی ازم اور پیری فقیری کی روایتی حلاوت کے ساتھ یہ فقہ باقیوں کے لئے بے ضرر تھا یا کم از کم جارح اور خطرناک نہیں تھا۔ ناموس رسالت کے معاملے پہ مگر اس مکتبہ فکر کے دوکاندار بھی بالآخر اپنی فرنچائزز ایسٹبلش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کافی عرصہ سے ان بنیادوں پہ جو نفرت کے بیج بوئے جا رہے تھے ان کی فصل اب پکنے کو تیار ہے اور اب یہ فرقہ بھی مرنے مارنے سے کم کی بات نہیں کرتا۔ اس بے ضرر اور کشادہ دل مکتب فکر کے پر امن لوگوں کی باگ دوڑ اب خادم رضوی ایسے علماء کے سپرد ہے اور انہیں جس سرعت و مہارت کے ساتھ انتہا پسندی اور نفرت کی آگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے تس پہ یہ فرقہ بھی اپنی جگہ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ مظلوم بھی ہے

دیوبندی مکتبہ فکر تو فقیہان حرم کی جانب سے پاک سر زمین پر لانچ ہی اس لئے کیا گیا کہ دین محمدی میں سے رسوم و رواج کی آلائشوں کو نکال پھینک کر ’خالص اسلام‘ کا احیاء کیا جا سکے۔ یہ مکتبہ فکر مندرجہ بالا دونوں مکاتیب کو بالترتیب رافضی و بدعتی قرار دیتے ہوئے خلوص دل سے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہے اور اس پہ محض اصرار اور ببانگ دہن اعلان ہی نہیں فکری جنگ سے لے کر مسلح جہاد تک کو بھی واجب سمجھتا ہے۔ اول الزکر دونوں فقہات کی نکتہ آفرینیوں اور بدعتی سرگرمیوں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پنے فرقہ کے سادہ لوح جوانوں کو ایسے دکھایا جاتا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کی برین واشنگ کر کے انہیں خودکش بمبار بنایا جا رہا ہے۔ اس فرقہ کو جس بے دردی سے اپنوں پرایوں نے پراکسی وارز میں استعمال کیا اور کروایا، ان کے نوجوانوں کو ڈالر جہاد کا ایندھن بنایا ایسے کئی حوالوں سے یہ فرقہ بذات خود مظلوم بھی ہے

جس نفرت، ظلم و ستم، نسل کشی اور تختہ مشق بنانے والے امتیازی سلوک کا یہ سب فقہات ایک دوسرے سے شکوہ کرتے ہیں وہی سلوک یہ سب مسالک مل کر قادیانیوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اسے ہر لحاظ سے درست قرار دیتے ہیں۔ اب کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ قادیانی تو دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو جناب مندرجہ بالا فقہات میں سے کون ہے جو یقین کامل کی حد تک خود کو صراط مستقیم پہ گامزن اور دوسرے فقہ کے پیروکار کو کافر نہیں سمجھتا؟

جب تک ہم اتنے عالی ظرف نہیں ہو جاتے کہ مخالف مکتبہ فکر کی خامیوں کو ڈھونڈنے کی بجائے اپنے فقہ کی بد اعتدالیوں پہ تنقید کر سکیں۔ اپنے بچوں کو سمجھا نہ سکیں کہ کوئی دوسری ہستی بھی کسی کے لئے اتنے ہی محترم ہو سکتی ہے جتنے کہ آپ کے لئے آپ کے اکابر۔ اپنے بزرگوں کی توہین خبریں ہمیں جس رنج و الم اور غم و غصے میں مبتلا کر دیتی ہیں ویسی المناک کیفیت کسی دوسرے کو لعنت ملامت پہ کسی دوسرے گروہ کو بھی محسوس ہو سکتی ہے۔ دوسرے فقہات کی لاشوں پہ ویسے ہی آہ و بکا اور ماتم و گریہ کرنے کی اخلاقی جرات پیدا کریں کہ جیسے اپنے ناحق مقتولوں پہ کرتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہاں کوئی مظلوم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).