ریاست مدینہ سے گھیسٹ پورہ تک



”بابا! کیا یہ ہر عید پر ایک مسجد کو گراتے ہیں؟ ‘‘ اس معصوم سوال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں فیصل آباد گھیسٹ پورہ میں ہونے والے واقعہ کی خبریں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا۔ اسی حوالے سے گھر میں بات ہو رہی تھی کہ ارض پاک پر ظلم و تعدی کایہ سلسلہ کب رکے گا؟ میرا چھ سالہ بیٹا جو میرے پاس ہی بیٹھا تھا، نے یہ سوال کر دیا۔ ” بابا! کیا یہ ہر عید پر ایک مسجد کو گراتے ہیں؟ یہ سوال ایک لمحے کے لئے مجھے مبہوت کر گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن پھر ساتھ ہی اسی رمضان المبارک میں عید کے قریب سیالکوٹ میں سو سالہ پرانی گرائی جانے والی احمدیہ بیت الذکر کی طرف ذہن گیا۔ میں بچے کی ذہانت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ اور یہ بھی کہ ہمارے ارد گرد ہونے والے واقعات کا کتنا دیرپا اثر بچے قبول کرتے ہیں۔ اگلا سوال اس سے بھی مشکل تھا ” بابا! یہ مسجد گرانے والے لوگ کون ہوتے ہیں؟

میں اس معصوم کو کیا بتاؤں کہ یہ مسجد گرانے والے ہی تو پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ یہی تو ہیں عبادات بجا لانے والے۔ محراب و منبر کے وارث۔ انہی میں آل رسول ﷺ کہلانے والے بھی شامل ہیں اور فدائیان امت بھی۔ ناموس رسالت کے محافظ بھی اور عاشقان رسول بھی۔ انہیں کے خمیر میں عشق رسول کی آگ موجزن ہے۔ اور وہ اس آگ سے اپنے نفس کی آلائشوں کو جلانا نہیں چاہتے معاشرے کو جلا کر خاکستر کرنا چاہتے ہیں۔ محبان رسول کا یہی گروہ سب سے بڑھ کر رسول خدا کا نام لیوا بھی ہے۔ اسی نبی رحمت ﷺ کے نام او ر ناموس کی خاطر ہی یہ کارروائی بھی کرتے ہیں۔ پر رسول خدا کا نام ظاہری طور پرجپتے جپتے اتنے دور نکل گئے ہیں کہ ان اقدار سے کوئی واسطہ نہیں رہا جن کے قیام کے لئے رسولوں کے سردار ﷺ نے ساری عمرمشقت اٹھائی۔
میں اس بچے کو کیا جواب دوں کہ یہ نئی نویلی” ریاست مدینہ‘‘ کے باسی ہیں۔ پر اصلی ریاست مدینہ کے خدو خال سے نابلد اور ناواقف محض ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقدس نام پر ہر گندہ او رگھناؤنا فعل کرنے والے ہیں۔ ذاتی مقاصد کے لئے دین بیچنے والے ہیں۔

ریاست مدینہ کے سرسری کوائف بھی دیکھ لیں تو والیء ریاست مدینہ نے:
غیر مسلموں کے حقوق بھی مسلمانوں کے حقوق کے برابر عملی رنگ میں قائم فرما کر دکھائے۔
ہر قسم کے معابد محفوظ قرار دیے گئے اور ان کی حفاظت کر کے دکھائی۔
غیر مسلموں کو عبادات رسم و رواج تبلیغ کی مکمل آزادی دی۔ ریاست مدینہ میں غیر مسلموں کی تبلیغ سے اسلام کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔

ظاہر و باہر منافقین کو بھی کبھی دھتکارا نہیں گیا۔ والی ریاست مدینہ نے منافقین کے سردار کی نہ صرف نماز جنازہ پڑھائی بلکہ اس کو ڈھاپنے کے لئے ردا مبارک بھی عطا فرمائی۔
غیر مسلموں کے جنازے کے احترام میں بھی کھڑے ہو کرشرف انسانیت کا عظیم درس عملی شکل میں جاری کر دیا۔
یہودیو ں کی طرف سے دی جانے والی دعوت طعام قبول کر کے اپنے قول پر فعل کی شہادت ثبت فرما دی۔

پر یہاں نوزائیدہ ”ریاست مدینہ‘‘ کے باشندگان نے معمولی ذاتی لڑائی کو مذہبی رنگ دے کراقلیتی برادری کی عبادت گا ہ پر حملہ کرنے کا از خود جواز پیدا کر لیا۔ اور اسی ” ریاست مدینہ ‘‘ کے ترجمان نے اس بربریت اور جنونیت کو ذاتی لڑائی قرار دے کر معاملہ ہی ختم کر دیا۔ دائرہ مکمل ہوا۔ عدل انصاف کا بو ل بالا ہو گیا۔ تحقیقات کے تقاضے پورے ہوگئے۔ اقلتیں محفوظ وہ گئیں۔ امن و آشتی کا قیام ہو گیا۔

اب پھر کسی نئے المیے کی راہ دیکھی جا ئے گی۔ کوئی اور عبادت گاہ گرنے کا انتظار ہوگا۔ کسی اور چوڑے چمار کو سر راہ جلانے کے بعد ہجوم عاشقاں اسلام کو زندہ کرے گا۔ واقعی اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے تازہ بتازہ قربانیوں کی ضرورت رہے گی۔ لیکن اب نیا دور ہے نئے تقاضے ہیں۔ دور اولیٰ میں تو مسلمانوں نے اپنے اموال و نفوس، عزت و وقار، جا ہ جلال، ماں باپ اور اپنی اولاد کی قربانی دے کر، اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر، اپنے وطنوں کو مجبوراً چھوڑ کر امن و امان اور شانتی کا قیام کیا تھا۔ شرف انسانی اور احترام انسانیت کو عملی جامہ پہنایا تھا۔ ان لا تعداد قربانیوں نے ریاست مدنیہ کا خواب شرمندہ تعبیر کیا تھا۔

آج کے دور کا مجاہد بھی سر فروش ہے۔ اسے بھی ادراک ہے کہ نئی نویلی ریاست مدینہ کا قیام بھی قربانیوں سے ہو گا۔ اموال و نفوس کی قربانی، عبادت گاہوں کی قربانی، عزت و وقار کی قربانی، گھر بار کی قربانی، ماں باپ، بہن بھائی، اور اولاد کی قربانی۔ جذبات کی قربانی۔ اظہار رائے کی قربانی۔ ہاں فرق صرف یہ ہے کہ یہ قربانی اکثریتی ریاستی باشندے نہیں دیں گے۔ یہ قربانی محبان رسول ﷺ نہیں دیں گے۔ یہ قربانی لی جائے گی۔ آخر اس نئی نویلی ”ریاست مدینہ ‘‘ میں اقلیتیں کس مرض کی دوا ہیں۔ اگر انہوں نے یہاں رہنا ہے تو اتنا حق تو بنتا ہے نا۔ اتنی سی قربانی تو ضروری ہے نا۔ تاکہ احساس ہوتا رہے کہ اقلیتیں اقلییں ہی ہیں۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اس ملک کے اصل باشندے نہیں ہیں۔ اصل مالک اور ہیں۔ حقیقتیں وہ ہوں گی جو مالک طے کریں گے۔ عدل و انصاف وہ ہوگا جسے مالک عدل و انصاف کہیں گے۔ کب تک مذہبی جنون کو مرغوں کی لڑائی قرار دیا جائے گا۔ کب مفادات کی خاطر مذمتی بیان جاری کیا جائے گا اور کب روک لیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ” مالک ‘‘کریں گے۔

پر بقول نورلہدیٰ شاہ :

” گردش زمانہ کا ایک چکر ایسا بھی آتا ہے جب
ہجوم، انسانیت کی حدود سے باہر نکل آتا ہے۔
لوگ ایک دوسرے پر سنگبازی سے تسکین پاتے ہیں

زمانے کے اس چکر کے دوران
سچائی جرائم میں شمار ہوتی ہے
گردش زمانہ کا یہ چکر مکمل ہونے تک حق کے طرفدار غاروں میں سو جاتے ہیں
ایسا دور قحط الرجال کہلاتا ہے
یہ زمانے کابد نصیب ترین دور ہوتا ہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).