جنگل کا قانون اور نیا شیر


”کیسی عجیب بات ہے جہاں کوئی قانون نہیں ہے وہاں کا قانون کتنا مشہور ہے، جہاں کہیں بھی لاقانونیت پائی جاتی ہے، جنگل کے قانون کی مثال دینے لگتے ہیں“ کوّے نے فراست سے کہا، طوطے نے جواب دیا، ”بالکل درست کہا تم نے میاں! شکر ہے ہمارے جنگل میں ایسا کچھ نہیں ہے، کوئی قاعدہ، کوئی قانون نہیں ہے، ورنہ دنیا میں ہمارے جنگل کی مثالیں نہ دی جاتیں“۔

اتنے میں خرگوش اپنے بیٹے کو لے کر آگیا ”لو جی آج تو جی خوش ہو گیا میرا، آج میرے بیٹے نے خود دلچسپی ظاہر کی ہے تو میں یہاں آپ کے پاس لے آیا ہوں، بڑا ہو گیا ہے ناں بہت کھیل کود لیا اب جنگل کے بارے کچھ جان لینا چاہیے؛ لیکن اس کے سوال کچھ ایسے پیچیدہ تھے کہ مجھے آپ لوگوں کے پاس لے کر آنا پڑا۔ اب یہ تو بہت پرانی باتیں پوچھنا چاہتا ہے، کہتا ہے کہ کیا شیر ہمیشہ سے ہی جنگل کا بادشاہ تھا پہلے کس کی حکمرانی ہوا کرتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ بھئی! میرے پاس تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں ہیں تو میں اس کے دادا استاد کے پاس لے آیا ہوں۔ “

اب اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر خرگوش بولا، ”یہ دونوں تمھارے دادا ابو کے دوست بھی ہیں اور میرے استاد بھی؛ جنگل میں ان سے زیادہ بزرگ ہستی کوئی بھی نہیں ہے ان کے سینے میں جنگل کی ساری تاریخ دفن ہے۔ اب تم جو جاننا چاہتے ہو یہ تمھیں بتائیں گے“

”کیوں نہیں بھئی ضرور بتائیں گے۔ ہمیں تو بہت خوشی ہے کہ ہماری نوجوان نسل یہ جاننا چاہتی ہے۔ اپنا ماضی تو ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے، اُس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، مزید غلطیاں کرنے سے بچتا ہے۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ اسے ہمارے پاس چھوڑ جاؤ۔ ہم لوگ آج خوب گپ لگائیں گے۔ “ کوّے نے قدرے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔ خرگوش اپنے بیٹے کو چھوڑ کر چلتا بنا۔

اب وہ تینوں وہاں جنگل کی بہت پرانی تاریخ اُٹھا کر بیٹھ گئے۔ نوجوان خرگوش بہت متجسس اور پرجوش دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے پہلے ہی وضاحت کردی تھی کہ اس کے یہ سب جاننے کی وجہ اس کے اندر کا کوئی بغاوت کا عنصر ہرگز نہیں ہے۔ وہ شیر کی حکمرانی میں بہت خوش ہے اس کے یہ سب پوچھنے کی وجہ صرف جاننے کی تمنا ہے ایک عجیب سی طلب ہے اُس معلومات کو جاننے کی اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کوّا اور طوطا اس کے اس بات سے کافی مطمئن ہوئے کیونکہ ان کے ذہن میں یہ خدشہ بھی موجود تھا۔ نوجوان خرگوش نے بھی اسی وجہ سے پہلے ہی واضح کر دیا۔

”تم نے کبھی جمہوریت کے بارے میں سنا ہے؟ “ طوطے نے سوال کیا
” جی بالکل! لومڑی خالہ نے بہت بتایا ہے اس کے بارے میں اور بہت تعریفیں بھی کرتی ہیں اسکی“ نوجوان خرگوش نے جواب دیا۔

”ہاں اُس نے تو تعریفیں کرنی ہی ہیں اس کے آباد و اجداد جمہوریت میں بادشاہ کے برابر کی زندگی جو بسر کرتے رہے ہیں“ کوّے نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔ “ تو کیا جمہوریت ایک اچھا طرز حکومت نہیں تھا؟ “ نوجوان خرگوش نے حیرانی سے پوچھا۔ طوطا بولا ” طرزِ حکومت کوئی بھی ہو اگر غریب، مسکین اور معصوم جانور کسی بھی وقت شکار ہو جائیں، بھوک سے مر جائیں یا اپنے حاکم سے تنگ آکر کسی بیابان چلے جائیں تو وہ کسی بھی طرح پسندیدہ یا اچھا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ اگر بھوکے کو کھانا مل رہا ہو، بے ضرر جانوروں کا تحفظ یقینی ہو اور کسی درندے کا کسی کو خوف نہ ہو تو طرزِ حکومت کوئی بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ “

نوجوان خرگوش کو دلیل میں جان محسوس ہوئی کہ واقعی اصل مقصد تو افلاس کا ختم ہونا، جان کی حفاظت اور سب سے بڑھ کر حاکم کے ظلم و بربریت سے محفوظ ہونا یا حاکم کا رحمدل ہونا ضروری ہے نہ کہ وہ طریقہ جن میں یہ سب فراہم ہو۔ کوّے نے اسے بتایا کہ جب جمہوریت تھی تو شیر کو حکمرانی کے لئے مختلف انواع کے جانوروں کی بھی حمایت حاصل کرنا پڑتی تھی۔ چونکہ شیر اتنی تعداد میں نہ تھے تو انہیں ہر نسل کے جانور یا زیادہ سے زیادہ نسل کے مختلف جانوروں کی حمایت لینا ضروری تھی جس کی وجہ سے ان کو بھی کچھ حکومتی فیصلوں کی اجازت دی جاتی تھی جس کا وہ ناجائز استعمال کرتے تھے۔ ان میں لومڑ سب سے شاطر ہوتے جو ہر حکومت میں رہتے اور طرح طرح سے معصوم جانوروں پر ظلم ڈھاتے اور نقصان پہنچاتے۔ جنگل کے اکثر جانور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آتے رہتے اور ان کو اپنا خیر خواہ جان کر ان کو اپنا نمائندہ بناتے رہتے۔ وہی جانور بار بار منتخب ہوتے اور چند مخصوص نسلوں کی بھلائی کا کام کرتے جو تعداد میں زیادہ ہوتے اور اسی وجہ پھر وہی منتخب ہوجاتے۔

اس طرح سے کمزور جانور ہمیشہ نقصان میں رہتا کبھی ان کے بچوں کو بھیڑیا اُٹھا لے جاتا تو کبھی ان کے حصے کا کھانا لگڑ بگڑ مار جاتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایسے مجبور مفلس جانوروں کو بھی دیکھا جنہوں نے بھوک اور خوف کے دباؤ میں آکر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں خود ختم کر لیں تھیں۔ پھر ایک بار ایک ایسا شیر آیا جو ان سب حقیقتوں سے آشنا تھا مگر اس کے لئے حکومت میں آنا بہت مشکل تھا وہ جب سب کے حقوق کی بات کرتا تو نام نہاد جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اپنے لالے پڑ جاتے اور وہ جمہوریت کا راگ الاپنے لگ جاتے کہ یہ تو ہمارے نظام کو ہی برباد کرنے آیا ہے۔ اور وہ شور مچانے لگتے۔ وہ اکیلا ہی اس مقصد کو لے کر چلا تھا کہ اس نام نہاد جمہوریت کو تو میں ختم کرکے چھوڑوں گا لیکن یہ اُس نے کسی کو ظاہر نہیں کیا۔

اس کی اس جدوجہد میں کئی ایسے جانور بھی شامل ہوگئے جو موجودہ نظام سے ہمیشہ فائدہ اُٹھاتے رہے تھے لیکن اس نے کسی کو اپنے ساتھ آنے سے روکا نہیں کیونکہ اس کے پاس ایسا منصوبہ تھا وہ جانتا تھا کہ جب اس کے پاس حکومت آئی تو کوئی بھی اپنی طاقت کا ناجائز استعمال نہیں کر سکے گا۔ اُس وقت کا پارلیمانی نظام ایسا تھا کہ اپنے اچھے خاصے نمبرات کے باوجود اُسے مجبوراً چند مفاد پرست جانوروں کے ٹولوں کو ساتھ ملانا پڑا لیکن بعد میں بڑی دانشمندی سے وہ ایک ایک فیصلے ایسے کرتا گیا کہ سب کے سب بے بس ہوگئے اور پھر اُس نے تب سے طرز حکومت بھی بدل کر رکھ دیا نہ صرف یہ کیا بلکہ ایسے ایسے کام کیے جو کبھی تصور بھی نہ ہوئے تھے۔

جیسے چند چشموں پر صرف حکومتی ارکان کا راج تھا وہ عام جانوروں کے لئے بھی کھول دیے۔ مختصر یہ کہ اُس دور سے پھر عام جانوروں کا راج شروع ہو گیا، کہنے کو تو یہ ملوکیت ہے لیکن جمہوریت سے ہزار گنا بہتر ہے۔ اس پر طوطے نے بہت خوبصورت بات کی، بولا شہروں میں بھی اُسی طرح کی جمہوریت ہے کیا ہی اچھا ہو اگر وہاں بھی جنگل کی طرزِ حکومت آجائے ویسے بھی جنگل کا قانون تو وہاں پہلے ہی موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).