کافر کیلاشی حسیناؤں کے دیس میں


پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے، آج کل اسے دفنانے کا رواج ہے کیلاش میں ہونے والی فوتگی خاندان کو اوسطاَ تین، چار لاکھ میں پڑتی ہے جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دس بارہ لاکھ تک بھی چلی جاتی ہے۔ فوتگی کی طرح ان کے ہاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن ہے۔ لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لیجانی ہوتی ہے۔ لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ہے، یوں رشتہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دعوت کا اہتمام ہوتا ہے جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں۔

شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں، اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ہے اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ہو تو اس کے سابقہ شوہر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں پہلا بچہ پیدا ہونے پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ہے جس میں بکرے اور بیل ذبح ہوتے ہیں۔ یہ دعوت ہوتی لڑکی والوں کے ہاں ہے مگر اخراجات لڑکے والوں کو کرنے ہوتے ہیں۔

اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ہوا تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ہوگا یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہوتی رہیں تو یہ رسم برقرار رہیگی، اس سے جان تب ہی چھوٹ سکتی ہے جب مخالف جنس کا بچہ پیدا ہو۔ اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ہو جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ہے کہ کیلاش کو اسلام قبول کرنا ہوگا خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی حالیہ عرصے میں شادی سے قطع نظر کیلاش لڑکیوں میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان وادیوں میں پیدا ہونے والا بچہ رہتا تو کافرستان میں ہی ہے لیکن اسے پیدائش کے ساتھ ہی کوئی یورپین گود لے لیتا ہے اور وہ اس کے لئے ہر ماہ رقم بھیجتا رہتا ہے ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اسے سمجھنا مشکل نہیں۔

وادی کیلاش میں جس چیز نے مجھے نہایت رنجیدہ کیا وہ اس علاقے میں آنے والے مسلمان نوجوان سیاح تھے جو کھلم کھلا کیلاشی خواتین کی بنائی جانے والی شراب پیتے ان کے ساتھ بے ہودہ حرکتیں کرنے میں کھلے عام مصروف نظر آتے دوسری بات یہاں کے لوگ سیاحوں سے بھیک کے عادی ہوگئے ہیں ان سے بات کرنے کے لئے بھی آپ کو پیسے دینے پڑیں گے ان کے بچے راہ چلتے آپ کو پیسے دو پیسے دو کے آوازوں سے تنگ کردیں گے۔ محکمہ ثقافت اور سیاحت سے پرزور اپیل ہے کہ اس معاملے کے حل کے لئے سنجیدگی کے ساتھ سوچیں اور کوئی راہ نکالیں۔ کیلاش میں کئی گھنٹے گزارنے اور گھوم پھرنے کے بعد ہمارا یہ سفر رات گیارہ بجے باجوڑ پہنچ کر بخیروعافیت ختم ہوا۔ قدرت کے حسین نظارے دیکھنے ہیں تو کیلاش ضرور جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2