پیر کی مرید مدنی باجی اور ہوسٹل کا بیڈ


وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے گھر چھوڑا اور وہ نیک پروین پنکی بی بی کو مل گیا۔ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ جانے والا ملٹری سیکرٹری اور طبیعت کا مالک تھا اور پنکی بھابھی اور طبعیت کی۔ پھر جب پنکی بھابھی نے بیڈ تبدیل کروا کر نیا منگوایا، میرا یقین مزید پختہ ہوا۔ اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ مارچ 2010ء جب میں نے ایم فل میں داخلہ لیا۔

ہاسٹل میں کیوبیکل میں جگہ نہ ہونے کے سبب ہال میں پندرہ لڑکیوں کے ساتھ رہنا پڑا۔ ان پندرہ میں سے نو ملتان میں کسی مدنی پیر کی بیعت میں تھیں۔ ان کو مدنی بھائی سے متعارف کرانے والی باجی پاس آوٹ ہو چکی تھیں، اس لیے میں ان کے دیدار سے محروم رہی۔

خیر باجی کی جگہ ان کی نائب نے سنبھالی اور باجی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ یونیورسٹی سے واپسی پر شام تک سویا جاتا اور مدنی محفل رات کے کھانے سے شروع ہو جاتی۔ میٹھی میٹھی مدنی باتوں کے دوران کھانا کھایا جاتا۔ باجی سے مدنی سوال پوچھے جاتے جن کا باجی مدنی پھولوں کی روشنی میں جواب دیتیں۔ اس کے بعد کمپیوٹر پر نعت سنی جاتی۔ آواز اتنی اونچی رکھی جاتی کہ کاریڈور کے تمام غفلت میں پڑے اصحاب جاگ سکیں۔ شب 2 بجے تک یہ روٹین جاری رہتی اور پھر صبح یونیورسٹی جانے تک سویا جاتا۔

میرے روم میں آمد پر باجی نے ٹھنڈی یخ کوکا کولا پلائی، جس پر آج بھی میں باجی کی مشکور ہوں۔ جب کہ باقی ہم چھہ ہال میٹ کی روٹین الگ تھی۔ میں صبح وزیر اعظم انٹرن شپ پروگرام کے تحت ملازمت کے لیے گورنمنٹ گرلز کمپری ہینسو ہائیر اسکینڈری اسکول ملتان جاتی اور واپسی پر یونیورسٹی کلاسز اٹیینڈ کرتی۔ عشا کے بعد جب نیند غلبہ پاتی تو مدنی محفل عروج پکڑنا شروع کر دیتی۔

خیر ذکر ہو رہا تھا باجی سے پوچھے جانے والے سوالات کا، تو اس سلسلہ کے چند سوالات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ مثلاً ایک مدنی بہن نے سوال کیا، کہ باجی اپنی رقم کے علاوہ خریدا گیا سامان حرام ہے، تو کیا جب ہماری دوست اپنے لیے جوس خریدے اور اصرار کرے، کہ ہم بھی پئیں تو ہم اس کے اصرار پر، آپ ایک گھونٹ لے لیں، کیا وہ حلال ہوگا کہ حرام؟

باجی نے اپنے  پیر کے فراہم کردہ  مدنی پھولوں کی روشنی میں جواب دیا، کہ وہ حرام ہو گا۔ اس فتوے کی مد میں ایک عدد حرام کوکا کولا پی چکی تھی۔ لہذا میں نے فوراً بستر سے منہ نکال کر اس بوتل کے حلال ہونے کے بابت استفسار کیا، تو مدنی باجی نے بتایا، کہ وہ حلال تھی۔ خیر! دل میں باجی کو برابھلا کہتے ہوئے سو گئی۔

نماز پڑھنے کے دوران ذہن نہ بھٹک سکے، اس کے لیے مدنی حل تجویز ہوا کہ موبائل پر نعت ہینڈ فری کی مدد سے سنتے ہوئے، نماز ادا کی جائے تو دھیان بھٹکا بھی تو نعت کی جانب جائے گا، جو مزید ثواب کا باعث ہوگا۔ اس پر تمام مدنی چیلیوں نے فوری عمل شروع کر دیا۔ دل کو سمجھایا کہ یہ ان کا عقیدہ اور ذاتی مسئلہ ہے، اور اس پر اعتراض کا مجھے کوئی حق نہیں۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا، مدنی بہنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا گیا اور میرا آرام حرام ہوتا گیا۔ وہ تمام رات سونے نہ دیتیں، بار ہا کہنا پڑتا، صبح اٹھنا بھی ہے، آواز آہستہ کر لیں۔ ایسے احتجاج پر آواز آہستہ ہوتی اور جونھی نیند آنا شروع ہوتی، آواز دوبارہ تیز ہو جاتی۔ دل میں خاصی دعائیں مانگتی، کہ اللہ کرے کمپیوٹر خراب ہو جائے۔ کبھی دعا قبول بھی ہو جاتی لیکن معاملہ ضبط کا امتحان لے کر دعا کے ساتھ دوا کی طرف چلا گیا۔

ایک رات جب مدنی باجی اور چیلیوں نے نعت پر جھومنا شروع کیا، تو میں نے لیپ ٹاپ کے ساتھ اسپیکر اٹیچ کر کے سونو نگم کے گانے چلا دیے۔ طاری مدنی وجد کا ارتکاز ٹوٹا، تو ایک بہن میرے پاس آ کے بولی۔ ’اپ یہ بند کریں‘۔ میں نےکہا، ’جی آپ بھی کریں گی تو ہو گا بند، ورنہ نہیں‘۔ مدنی باجی نے فرمایا، ’توبہ توبہ! وہ نعت آپ گانے سن رہی ہیں‘۔ میں نے کہا، ’مسئلہ نعت یا گانا نہیں، بلکہ ہم دونوں کا مسئلہ ایک دوسرے کو تنگ کرنا ہے‘۔

معاملہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ تک گیا اور طے یہی ہوا کہ دونوں نہیں چلائیں گی۔ ایک سال بعد جب سب مدنی لوگ رخصت ہوئے تو مدنی باجی کی شدید خواہش تھی، ان کے چھوڑ ے گئے بیڈ پر کوئی نیک مدنی باجی آئے، لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے؛ وہاں ایک دم ذندہ دل چلبلی طبیعت کی ڈسکو گرل آگئی۔ اور شاید یہی قانون قدرت ہے کہ تبدیلی آ کر رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).