وزیر اعظم عمران خان کی کتاب” میں اور میرا پاکستان” پر تبصرہ


زیرنظر کتاب” میں اور میرا پاکستان” کےمصنف جناب عمران خان) وزیر اعظم پاکستان(ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے پہلے تک مجھے ذاتی طور پر عمران خان صاحب سے کئی تحفظات تھے مگر کتاب پڑھنے کے بعد میں ان کی شخصیت سے کافی حد تک متاثر ہو گیا ۔ کتاب پڑھنے کے بعد میں ذاتی طور پر کئی الجھنوں سے بھی آزاد ہو گیا ان الجھنوں کا حل مجھے اس کتاب “میں اور میرا پاکستان” سے ملا۔

زیرنظر کتاب چند ان کتب میں شامل ہے جن کتب کو قاری ایک ہی نشت میں پڑھنا چاہتا ہے۔کتاب کےمطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا انداز فکر کتنا بلند اور روایت سے ہٹ کر ہے مصنف نے تقریبا تمام معاملات کو ایک الگ زاوئے سے دیکھا اور سمجھا ہے تقسیم ہندمیں جس طرح خون ریزی ہوئی اور انسانیت پامال ہوئی اس کا احساس ہر ذی شعور انسان کو ہے ۔بقول امریکی فوٹوگرفر مارگریٹ بروک وائٹ )جو پہلی جنگی وقائع نگار بھی تھی(:

اس تقسیم کو “انسانی تباہی کا عظیم ترین انسانی المیہ لکھا”

آزادی جو انسان کو سب سے بڑی نعمت عطا کرتا ہے وہ عزت نفس ہے ۔غلامی انسان سے اس کی سب سے بڑی دولت عزت نفس کو چھین لیتا ہے۔ غلامی میں انسان کی قوت تخلیق فنا ہو جاتی ہے اور انسان اپنی عمدہ ترین روایات پر بھی شرمندگی محسوس کرتا ہےبقول مصنف:

“غلام سرزمینوں میں جو مخلوق آ باد ہوتی ہے اس کے دماغوں اور دلوں میں احسا س کمتری کی فصل اگتی ہے و ہ اپنے آقاؤں کی بعض بدتر عادات کی نقالی کرنے لکتے ہیں قوت تخلیق فنا ہوتی اور پیروی باقی رہ جاتی ہے”

تقسیم ہند پر اب تک کئی کتب شائع ہو چکی ہے اور اس پر کئی تجزئے تبصرے اور تقسیم کے دوران ہونےوالی تشدد کی وجوہات پر بھی کافی بحث ہو چکی ہے مگرمصنف نے تقسیم ہند میں ہونے والی اس شرمناک تشدد کو الگ زوائے سے دیکھاہے ۔

لکھتےہے:

“اس پاگل پن کو کیا کہیے ،پاگل پن کے سوا اور کیا ہے؟کسی کو اندازہ نہ تھا کسی کے وہم وگمان تک میں نہ تھا کہ ایسا بھی ہوگا۔یہ تو کوئی سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ تشدد ایسی انتہائیں بھی دیکھے گا۔ کیایہ برطانوی راج کے خاتمے کا نتیجہ تھا یا صدیوں سے جاری توہین کی گھٹن بے قابو ہو کر جنون بن گئی”

مشرقی روایا ت کایہ خاصا ہےکہ خاندانی نظام اور مل جل کررہنے بزرگوں کی عزت وتکریم اور ایسے حرکات سےاجتناب کرنےجس سے بزرگوں اور خاندان کے لوگ ناراص ہواجتناب کرنے پر زوردیتاہے۔اور باعث اوقات صرف خاندان کا واحد شخص پورے خاندان کے کفالت کا زمہ دار ہوتا ہے جبکہ مغرب میں اس کے برعکس روایات ہے۔ اور مشرق میں بھی باعث مغرب زدہ گھرانےمغرب کے نقالی میں مصروف ہے ۔بقول مصنف:

“بد قسمتی سے مغرب زدہ گھرانوں میں بزرگوں کا احترام مٹتا جا رہا ہے ان میں سے جو مغرب کے تقلید میں اندھے ہیں وہ بڑوں کی توہین یا انہیں نظر انداز کرنےکو ترقی اور جدت کی علامت سمجھتے ہیں”

تقسیم کے بعد بھی اشرافیہ اور زیادہ ترحکومتی اہکار بھی انگریزوں کی نقالی میں مصروف رہی اور ہمیشہ عام عوام سے دوری بنائے بیٹھے رہیں مملکت خداد پاکستان کوآزادی کے ابتدائی ایام سے مشکلوں اور پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہونے اور دیگر کئی طرح کے مشکلات سے دوچار یہ نوزائیدہ وطن جس کو طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیاتھا جس کاخواب شاعر مشرق ڈاکٹرمحمد اقبال نے دیکھا تھا ۔اشرافیہ اور حکومتی اہلکار برعکس کے علامہ اقبال کی تعلیمات سے فیص یاب ہو وہ انگریزوں کی نقالی میں مصروف رہیں: بقول مصنف:

“بجائے کے اس کے ہماری اشرفیہ نوآبادیاتی غلامی کا طوق اتار پھینکتی الٹا انہوں نے اسے اور مظبوطی سےاپنےساتھ چمٹا لیا کہ جس قدر کوئی پاکستانی انگریزوں کی نقالی کرے گا اسی قدر اس کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوتا جائے گا “

دوسروں سے متاثر اوراپنے لوگوں کی بے توقیری کرناہمارے ہاں عام روجہان بنتا جا رہا ہے۔احساس کمتری اورنقالی میں آج تک ہم مصروف عمل ہے ولایت سے آنےوالااب بھی ہم سب کے درمیان و ی آئی بن جاتاہے اور ولایت سے آ نے والے کی سماجی حیثیت میں اضافے کےلیے صرف یہ کافی ہے کہ وہ ولایت سےہو کر آیا ہے ۔ہمارے رول ماڈل ،خواہ وہ کھلاڑی ہوں فلمی ستارے یا عوامی گلوگار سب کے سب مغرب سے تعلق رکھتے ہے۔احساس کمتری میں جس طرح پوری قوم گرفتار ہے اس کی وجہ اپنے اہمیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سےہے۔اقبال ایسےپلند پائے کے فلسفی جس نے مسلم قوم کی بیداری و تریبت کی ہم ان کی تعلیمات کو بھول کرتقلید کرنےمیں مصروف عمل ہے۔ علامہ اقبالؒ کی بلند فکری کو مصنف نے کس بہتر زوائے سے دیکھا ہے

۔لکھتےہے:

“ان کی فکر کا محور خودی ہے ان کی رائے میں خودی کا حصول ،عزت نفس ،اپنے آپ پر اعتماد اور اپنی صلاحیتوں کے ارتقا سے ممکن ہے ۔اقبال کہتے ہیں کہ آدمی خود اپنی تقدیر رقم کرتا ہے اور اس کا انحصار کردارکی تشکیل پہ ہے۔ان کا نظریہ عملی ہے اور وہ آدمی کواللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے مکمل ارتقا کی طرف راغب کرتے ہیں ان کی شاعری میں اہم ترین شاہین ہے جس میں عزم جرات پرواز اور خودداری پائی جاتی ہے وہ پرندوں کا بادشاہ ہے کہ تحفط اور پناہ کاآرزو مند نہیں ہوتا نوجوان نسل کو وہ یاد دلاتے ہیں”

توشاہیں ہے پرواز ہے کام ترا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہے

بجائےاس کے ہماری اشرافیہ علامہ اقبالؒ کی تعلیمات سے فیص یاب ہو وہ مغرب کے سحر میں مبتلا رہی علامہ اقبالؒ کی عظمت کو کن بہترین الفاظ میں مصنف نے پیش کیا ہے لکھتے ہے:

“اقبالؒ کی عظمت کامیں اس لیے بھی قائل ہوں کہ غلامی میں پیدا ہوئے پروان چڑھے کمال مگریہ کہ ان کی روح آزاد تھی حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت اور آزادی فکر کے وہ حامل تھے “

مغرب کے سحرمیں مبتلا ہونے کی ایک وجہ اپنی تمدن کا ہمیں بہتر علم نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے ہم مغرب کی تقلید میں مصروف ہے بقول مصنف:

“اگر اپنے مذہب اور تمدن کا ہمیں بہتر علم ہوتا تو شاید ہم اس طرح للچا کر مغرب کی طرف نہ دیکھا کرتے اس طرح جھک کر اس کی طرف قائل نہ ہوگئے ہوتے “

علامہ اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہے اور مایوسی اور ڈر وخوف سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔خوف کامیابی کی راہ میں نے والے سب سے بڑی رکاؤٹ ہےا اس خوف پر قابوہ پا کر ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے بقول علامہ اقبالؒ :

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

مغرب کے کامیابیوں پرسحر زدہ ہونے سے بہتر ہے کہ اپنی تربیت اب کی جائے اور ناکامی کے خوف سے اپنے آپ کو باہر نکالے۔زندگی کے ہر شعبےمیں خوف سے آزادی و خوداعتمادی اورمسلسل کوشش کامیابی کی ضمانت ہے بقول مصنف:

“ایک سپاہی جو موت سے ڈرتا ہو کبھی کسی اعزاز کا مستحق نہیں ہوتا ۔ایک تاجر خطرہ مول نہیں لیتا تو اس کی کامیابی کا امکان کم ہو جاتاہے ۔ ایک لیڈر جس میں جرات کی کمی ہے کبھی عزت نہیں پا سکتا اور نہ اپنی ٹیم میں جذبہ پیدا کر سکتا ہے”

انسان کی قوت ارادی اس قدر مظبوط ہے اب جس قدر اس کی تربیت کرتے جاتے ہے اس قدر ارادے کی مظبوطی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا جنون ہی اصل میں کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اگر مقصد کو پانے کی لگن جذبہ اور جنون نہ ہو تو کامیابی نصیب نہیں ہوتی انسان تب تک نہیں ہارتا جب تک خود حوصلہ نہ ہار دیں بقول مصنف:

“اگر مقصد کے لیے جنون کارفرما ہو توسخت محنت سے بے زاری ہوتی ہے نہ آدمی کبھی اکتا سکتا ہےآپ اس وقت ناکام ہوتےہیں جب حوصلہ ہار دیتے ہیں”

خواب کو پا لینے کے لیے جو جدوجہد درکارہےوہ انسان کی اندر کےکیفیات پر مشتمل ہے اگر اندر کی کیفیت اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تگ ودوکرنے پرنااکسائے تو باہر کے حالات چاہیے کتنے ہی سازگار کیوں نا ہو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں بقول مصنف:

“جب تک آپ اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تگ ودو نہیں کرتے صلاحیتوں کا ظہور پوری طرح نہ ہوگا انسانی آسودگی کا تعلق اس بات سے ہے کہ کوئی شخص اپنے مقصد حیات سے کتنا باخبر ہے اگر آپ کی خارجی دنیا میں خواہ طوفان کا شور برپا ہو اگر اس وقت اپنےخواب کے لیے سرگرداں ہو تو آپ کے اندرکی دنیا میں اطمینان جاکزیں ہوگا”

کسی بھی کام میں کامیابی حاصل کرنے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے کامیابی کا نسخہ یہ ہےکہ آدمی اپنے پیشے اسےمحبت کرئےاس پر اپنے کام کو لیے کر جنون سوارہو اور اپنے کام سےاکتائے نہ بقول مصنف:

“اپنے کام میں کامیابی حاصل کرنےکے لیے ضروری ہےکہ آدمی اپنے پیشے سےمحبت کریں تجر بے اورمشاہدے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ جسے جینئس یا نابغٖہ روزگار کہ کہا جاتا ہےوہ ایسا آدمی ہوتا ہے جو دیوانگی کی حد تک وہ سے عشق کریں”

جیسے جیسے انسان اپنی تربیت کرتا ہے وہ اپنے مقصد کےقریب ہوتا چلا جاتا ہے انسان کی صفات کی کوئی انتہا نہیں ہے آپ اپنی

جس قدر آپ اپنے کردار کی تشکیل کریں گے اس قدر ا عظیم ذخائرکو دریافت کرتے چلے جائے گے بقول مصنف:

” جیسے جیسے اپنے آپ کو چیلنچ کرتے ہیں ویسے ویسے اپنے اندر موجود ہمت کے عظیم ذخائرکو دریافت کرتے چلے جاتے ہیں جیسے ہی آپ ست پڑتے اور تحرک کھودیتے ہیں اسی لمحے کے آپکے ذوال کا آ غاز ہو جاتاہے”

اطمینان قلب خدا کی عظیم نعمت ہے سچا اطمینان مالی ایثار دوسروں کی مدد خاندانی زندگی اور بے غرضی کےساتھ اعلیٰ مقاصد کےلیے تگ ودو سے حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح صحرا میں پانی کا نظرآ نا فریب نظر ہوتا ہے۔ ا ایسی طرح زندگی کی چمک دار طرز زندگی جو دور سے بہت دلکش لکتی ہے محص فریب نظرہے۔بنیادی طورپر ہم حقیقی مسرت اور خوشی میں فرق نہیں کرپاتےاکثریہ نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہے وہ لذت کو خوشی سمجھتے ہے اور لذت میں خوشی تلاش کرنا چاہتے ہے جس کا نتیجہ منفی اور نقصاندہ ہوتا ہے بقول مصنف:

“حقیقی فطرت مسرت اور تلاش کی جانے والی خوشی میں فرق ہوتا ہے لذت کو خوشی کامتبادل سمجھنے کا نتیجہ آخر کار منفی ہوتا ہے”

اس کے علاوہ مصنف نے اپنی کتاب “میں اورمیرا پاکستان ” میں دیگر کئی اہم مسائل پر بحث اور تجزیہ کیا ہے ۔اسلام کی بلندی ،روحانیت ،بہتر معاشرہ، ساسیات اور دیگر مسائل پر بھی سیر حاصل کفتگو کی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).