کیا عمران خان جاگیردارانہ نظام کو توڑ پائیں گے؟


برطانیہ اور انگریز حکومتوں سے آزادی کے بعد سنگاپور، ملائیشیا جیسے انگنت ملکوں نے ترقی کی تو دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان میں بھی اہلِ صفا مسند پہ بٹھائے گئے اور فرنگیوں کے تاج اچھالے گئے۔ دیکھنے والوں نے اگر کچھ دیکھا تو وہ بھوک، افلاس اور غربت کی افریت ہی تھی۔ ہندوستان میں خیر حالات قدر بہتر ہوئے پاکستان نہ وہی کا وہی رہا نہ آگے بڑھا بلکہ مزید پیچے چلا گیا۔
اس کا سب سے بڑا فیکٹر تھا تو وہ انگریزوں کے دور میں پھلنے پھولنے والا جاگیردارانہ نظام تھی۔ جس نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں وڑیروں، سرداروں اور پیروں کی شکل میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ یہ وہ طبقہ تھا جس نے انگریزوں کو استحکام بخشا تو جواب میں انگریزوں نے ان کی ظلم و ستم کے کوہِ گراں سے بھی چشم پوشی اختیار کی نتیجتاً کسانوں اور غریبوں کا استحصال ان کا انمٹ مقدر رہا۔

آزادی کے بعد بھی پاکستان انھی کہ ہاتھوں آگیا اور متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ ان کے ماتحت ہوگئے۔ اگر کہیں کوئی عنایت اللہ شاہ کی قبیل کا کوئی انسان مسیحا بن کر آیا تو یہ جاگیردار بھی رسم بنی اسرائیل کو نہ بھولے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جاگیردارانہ طبقہ کی حکمرانی الیکشن میں ماضی کی نسبت کم دکھائی دی، سوائے سندھ کے جہاں یہ اب بھی اپنے جوبن پہ تھا، اور پیپلز پارٹی کی جیت اسی طبقے کی مرہون منت تھی۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے کے متعدد وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ تھی حالانکہ عمران خان کی اپنے پارٹی میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی شکل میں جاگیر دار طبقے کی نمائندگی ہے تب ہی تو عمران خان کے کرپشن کے خلاف جہاد کے دعووں اور کریک ڈاؤن کے بیانات کو دیکھتے ہوئے ایک متضاد عکس نظر آتا ہے۔

متعدد ارفع و اعلی دانشور اس بات پہ متفق ہیں کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردار سماج ہے اور عمران خان صاحب خود بھی وقعتاً فوقعتاً اسی امر کو زوال کی وجہ قرار دیتے ہیں مگر جس قلعے کو عمران ڈھانے کی ٹھان چکے ہیں تو وہ یہ بھی جان لیں کہ اس کی حکومت کی عمارت بھی انھی ستونوں پر استوار ہے اور سارا کنفیوژن ادھر ہی آکر ہوتی ہے۔

یہی طبقہ ہے جس کے گریباں پہ ہاتھ رکھنے کی پاداش میں لیاقت علی خان شہید ہوگئے اور یہی طبقہ تھا جس کے خلاف بھٹو نے اصلاحات کی تھی تو بھٹو کو پھانسی لگنے تک اہل حق بھی کچھ نہ کہہ سکے، اب کیا عمران اینڈ کمپنی یہ کرپائیں گے؟ اگر ہاں تو کتنی آسانی سے۔

بادل نخواستہ اگر عمران خان نے اس طبقے کو چھوٹ دی تو چائنا ماڈل کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا کیونکہ چائنا کی اگر آپ اکنامک تاریخ پڑھیں تو انھوں نے سب سے پہلے جاگیردار طبقے سے زمینیں چھینی ہیں اور اسے زرعی پیداوار کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہی حال سنگاپور کا ہے کہ وہاں پر بھی بعد از آزادی جاگیردار طبقہ کو ہی زوال اٹھانا پڑا تب جا کر چائنا ماڈل کامیاب ہوا۔ اصلاحات کی دو تین سالوں میں چائنا کا اکنامک گروتھ ریٹ 9 پر پہنچ گیا۔

اب سوال پھر وہی پہ آئے گا کہ کیا عمران خان ان سب مشکلات کے باوجود پاکستان اور اس کیترقی کی راہ میں آئل جاگیرداری کی خلیج کو پاٹ پائیں گے یا روایات کے مطابق جاگیرداری ہی حکومت کرے گی۔

صادق صبا کا تعلق بلوچستان کے ضلع گوادر سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں اور پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کا ذوق رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).