عمران کی صرف جان ہی کو خطرہ نہیں ہے۔۔۔۔


انسان کی زندگی کا سب سے بڑا کرب پتہ ہے کیا ہے؟
پہلے آپ سوچیں۔ اپنے جواب نوٹ کر کے رکھیں۔ کالم کے آخر میں جواب مجھ سے میچ کریں۔

پچھلے کالم میں لکھا تھا نا کہ صرف جذبات۔ جب جب وزیر اعظم کے ساتھ عمران خان کا نام دیکھتے ہیں تو دل کے اندر سے ایک خوشی کی لہر اٹھتی ہے۔ یہ تو عالم ہے ان لوگوں کا جو خان صاحب سے محبت رکھتے ہیں، دوسری طرف ایک اور انتہا ہے جو بلاوجہ خان صاحب سے نفرت رکھتے ہیں۔

یہ دو انتہائیں ہماری قوم کا مزاج اور نفسیات ہیں۔ ہم، پاکستانی، اندرون یا بیرون“ ہم نارمل اور باشعورلوگ نہیں ہیں۔ اور شعور کتابیں چاٹنے سے بھی نہیں آتا، علم کے دریا تو نہ جانے کس صدی میں پاکستان کے دریاوں میں اترنے بند ہو گئے تھے۔ اب تو جو ہے کائی جما ٹھہرا پانی ہی ہے۔ انڈیا سے آنے والا پانی ہی نہیں علم کے چشمے بھی بند ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ویسے تو اگر آپ علم و شعور کی کھیتیاں مقامی سطح پر لگا لیں گے تو یوں ادھار کا علم اور مانگے کی دانش آپ کے باغ کے پھولوں کو غداری کی سنڈی نہیں لگا سکے گی۔ شاید ہم یہ سمجھ نہیں پاتے کہ جو نظریات، جو رسمیں ہم ادھر ادھر سے اکھٹے کر کے، اس کی کھاد اپنے پودوں کی جڑوں میں ڈال رہے ہیں وہ کیا گل کھلا رہی ہیں؟

اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، اپنے ملک کے بڑے بڑے ستون دیکھ لیں، میڈیا، افسر شاہی، دانشور، پولیس، قانون، پروفیسر، عالم، سیاست دان، سب کے سب یوں لگتا ہے جیسے کسی اور ملک کی لیبارٹری میں تیا ر ہو کر آتے ہیں۔ میر جعفر نے جب ٹیپو سلطان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا تو جو لہو ان کی کمر سے ٹپکا تھا، اس کا کسی نے تدارک کیا ہو تا تو غداری کی کہانی ختم بھی ہو سکتی تھی۔ مگر یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ طرہ امتیاز بنتی چلی گئی۔ آج جو جتنا بڑا دھوکے باز اور شعبدہ باز، وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب۔ یہ شعبدے باز عمران خان کے گرد بھی اکھٹے ہیں اور ہو تے جائیں گے۔ عمران خان وہی ہے، وہی تھا اور وہی رہے گا۔ وہی عمران جس کی خامیاں اگنور کر کے ہم اس سے صرف محبت کرتے ہیں اور وہی عمران جس کی خوبیاں اگنور کر کے نفرت کر نے والے اس سے صرف نفرت کرتے ہیں۔

یہ محبت اور نفرت کا جال بننے میں ہمارے سنئیر کالم نگاروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایسی ایسی کہانی بناتے ہیں کہ ان کے ریدڑز کو کسی بت سے بھی محبت ہو جائے اور متلون مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ذرا ان کی کوئی خواہش پو ری نہ ہو تو یوں آسمان سے زمین پر گراتے ہیں اور ریڈرز چونکہ کم علمی اور خود دماغ استعمال کر نے کی عادت سے سالوں سے محروم ہیں، اس لئے وہ بن پیندے کے لوٹے کی طرح لڑھکنے لگتے ہیں۔ جب، مجھ جیسی، میلوں دور بیٹھی، کو یہ نظر آرہا تھا کہ راستہ وہی رہے تو منزل کیسے مختلف ہو سکتی ہے، میں لکھتی تو مجھے جواب میں قارئین کی ای میل آتیں اور میرے کالم کا منہ ایسے توڑا ہو تا کہ انہی سنئیر صحافیوں، جو ایک ایک کالم کے نہ جانے کتنے کتنے لاکھ لیتے ہیں، اور اس کے علاوہ، عوام کی رائے بنانے کا ہنر رکھنے کو، متعلقہ پارٹیوں کو کتنے کتنے میں بیچتے ہیں، ان کالم فروشوں، علم فروشوں کے کالموں اور ٹاک شوز کے اقتباسات اور کلپ جوڑ کر بھیجے جاتے اور مجھے کہا جاتا کہ آپ باہر بیٹھے لوگ ہمارے مسائل کو کیا جانیں اور یہ دیکھیں یہ لوگ جو وطن کے اندر رہ کر وطن کی خدمت کر رہے ہیں، انہیں زیادہ پتہ ہے یا آپ کو۔

اور میں بدلے میں کسی سے یہ بھی نہ کہہ سکتی کہ جو وطن میں بیٹھ کر اپنے ایک ایک لفظ کو جھوٹ ہو یا سچ سونے کی اشرفیوں میں تول کر وصولی کر رہے ہیں اور میں جو صرف مفت کا سچ بانٹ رہی ہوں، بلکہ اپنے وقت اور اپنے ذہنی سکون اور راحتوں کو قربان کر رہی ہوں۔ میری بے غرضی کو تم غرض کے علم کے مقابل کھڑا کر رہے ہو۔ مگر میں نمکین پانی کو حلق میں روک کر، اگلے ہفتے کا کالم لکھنے کو کمر کس لیتی۔ میرا علم نہ ادھار کا ہے، نہ میری سمجھ بوجھ۔ میں نے پاکستان کے نظام کو قریب سے دیکھا ہے، میں نے پاکستانیوں کی اچھائیوں اور برائیوں کو کسی پروپگنڈہ کی آنکھ سے نہیں دیکھا اور میں نے پاکستان کے فائدے کی بات پاکستان کے نام نہاد دانشوروں، سیاست دانوں اور بیور کریٹس کی پاکستان سے جھوٹی محبت کے آئینے سے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں کی نفرت کے آئینے میں زیادہ سمجھا ہے۔

اس کی ایک مثال عمران خان کی ذات ہے۔ خان کے حکومت میں آنے کے راستے سے لے کر اس کی ذات کی خامیوں پر تنقید کرتی تو دل کو تسلی ہو تی کہ میں نے لیڈر کو خدا بنا کر پو جنا نہیں شروع کیا۔ لیکن جب یہ دیکھتی کہ وہ لوگ جو پاکستان کے بہت خلاف ہیں۔ جن کی زندگی کا مقصد ہی پاکستان کی تباہی دیکھنا ہے، وہ عمران خان کے اتنے خلاف ہیں تو مجھے عمران سے پاکستان دوستی پر اور اعتماد ہو جاتا یعنی وہ پاکستان کے لئے رحمت اور پاکستان دشمنوں کے لئے زحمت بن سکتا ہے۔ ان پاکستان دشمنوں کے آپس میں لاکھ اختلاف سہی مگر عمران خان سے نفرت پر سب اکھٹے ہیں۔ پاکستان سے نفرت کرنے والے ایک انسان نے تو حد ہی کر دی، جو میرے سامنے اقرار کر چکا ہے کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ ( یہ آزاد اور مقبوضہ والے الفاظ تو میرے ہیں، یہ لوگ تو کچھ اور کہتے ) کشمیر کا حصہ بنا کر انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا مقصد ہے، جس کے لئے انہیں انڈیا کا ہر طرح کا تعاون ہے، مجھے صاف صاف کہنے لگا کہ ہم نواز شریف اور مودی کو پسند کرتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف ایسی ایسی باتیں۔ میں عمران خان پر کالم میں تنقید کر کے ہٹی ہی تھی۔ مجھے خود پر غصہ آیا۔ مجھے عمران خان کے چاہنے والوں کی وہ معصوم عقیدت خود سے بہتر لگی۔ عمران خان کو ہمارے اعتبار کی ضرورت ہے۔ جو میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا، ایک اندھا اعتبار ہے جو مجھے اپنی زخمی روح کے ساتھ اس پر کرنا ہے اور عمران سے زیادہ یہ ہم لوگوں کی آزمائش کا وقت ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی اسے آئے کچھ مہینے نہیں کچھ سال نہیں کچھ دن ہو ئے ہیں اور ایک ایک سانس پر تنقید شروع ہو چکی ہے۔ عمران نے جو کمپرومائزکیے ہیں، وہ اپنے نام کے ساتھ وزیر اعظم لگانے کے لئے نہیں ہیں۔ وہ ہم لوگوں کے لئے ہیں۔ ان کمپرومائز کے جو خسارے، جو اشارے ہیں وہ سب ہمیں تب بھی نظر آرہے تھے، لیکن اس وقت سارے پاکستان میں بیٹھے صحافی، لوگوں کو غیر حقیقی خوابوں کے جھولے پر بٹھا کر خود کروڑ پتی ہو رہے تھے مگر حلف اٹھانے کے اگلے دن ہی وہی صحافی ٹاک شوز میں بیٹھے عمران کی شیروانی، اس کے تلفظ، اور اس کی ایک ایک حرکت پر زمین آسمان سر پر اٹھائے ہو ئے تھے، وجہ بعد میں مجھے یہ سمجھ آئی کہ انہیں تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ نہیں ملا تھا۔

پاکستان وہ کباب ہے جو سنڈیوں سے بھرا پڑا ہے۔ خدا کے واسطے، جس انسان نے 22 سال گذار دیے، اسے 22 دن تو دیں۔ اپنے پسندیدہ کرپٹ اور عیاش حکمرانوں کو تو آپ تیس تیس سال سکون سے نا اہلی اور نا لائقی دکھانے کے موقعے دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ عمران کو۔ آپ لوگوں کو خوش کرنا نہیں آتا۔ میں تب بھی پو چھتی تھی، میں آج بھی بھی پوچھتی ہوں۔ 99%کرپٹ بیورکریٹس، جو، دل سے نواز یا زرداری کی واپسی کے خواہش مند ہو نگے، کیونکہ مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ، اور وہ میڈیا جس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔ لفافے جن کے گھروں کے دروازوں تک پہنچتے ہیں۔ ( ابھی ملا سین میں نہیں آیا ) ابھی یہ آستین کی سانپ بیوروکریسی ( جو تنخوائیں حکومتِ پاکستان سے لیتی ہے مگر جن کی ہمدردیاں پوسٹ اینڈ بیوفور ریٹارمنٹ انڈیا کے ساتھ ہو تی ہیں، جو انڈیا کو پسند وہ انہیں پسند، حسین حقانی تو ایک کھلی مثال ہے، ایسے کئی مکروہ چہرے، نقاب ڈالے پاکستان کی عوام کے خون پسینے کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ پانے والے، شخصی غلامی اور ذاتی مفاد کے گھناؤنے کھیل کھیل رہے ہیں۔ عمران خان کی جان کو سی آئی اے، موساد، را جیسی ایجنسیوں سے خطرے کی بات کی جاتی ہے۔ انہی کے ایجنٹ شاید ہمارے فارن آفسز میں روپ بھرے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ اینٹی پاکستان ایجنڈا ہو لڈرز اور ان کی باتوں میں مجھے کوئی فرق نہیں لگتا۔ ہمارے گھر کو گھر کے چراغوں سے ہی آگ لگتی ہے۔

عام لوگوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ سب سے زیادہ مراعات لینے والے طبقات، عوام کے خیالات کو ایک خاص رخ موڑنے کے پیسے بنا رہے ہیں۔ جس کی شہرت جتنی زیادہ ہو جاتی ہے، اتنی ہی اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے نیکی کا پرچار کرتے انسانیت کا جھنڈا اٹھائے ایسے نو سر باز وں کے جال میں نہ پھنسیں۔ وہ یہ سب اپنی قیمت بڑھانے کے لئے ناٹک کر رہے ہو تے ہیں۔ اپنی ذات اپنی ناک کے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔

یہی بات ہے کہ میں یہی سوچتی ہوں کہ کیسے عمران خان اتنے زیادہ سانپوں کی موجودگی میں کچھ اچھا کر سکے گا؟ یہ اندر اندر ایک ایماندار انسان کے خلاف نفرت سے بھر ے بیٹھے ہیں۔ ان کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے جال سے عمران بچ جائے گا؟ عمران کی صرف جان کو ہی خطرہ نہیں بلکہ اس کے وقار، اس کے خواب، اس کی پاکستان سے محبت۔ عوام کی اس سے محبت اس سب کو خطرہ ہے۔

اور عمران جس دن اس کرب میں مبتلا ہوگیا، جو دنیا کا سب سے بڑا کرب ہے، یعنی محبت کرنے والوں کی آنکھ میں اپنے لئے نفرت دیکھنا، وہ دن موت سے بھی بدتر ہو تا ہے۔ وہ عمران کی جان کے خطرے سے بھی بڑھ کر ہے۔ سازشی بیوروکریسی اور مفاد پرست میڈیا، اس کام پر لگ چکا ہے۔ کیا اس سے بچا جا سکتا ہے؟
عوام سے گذارش یہ ہے کہ صبر سے عمران پر اعتماد رکھیں اور اسے کام تو کرنے دیں۔ اسے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھانے کی سازش شروع ہو چکی ہے۔ آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).