کپتان، مولانا، نیم مولانا اور غیر مولانا


کسے خبر تھی کہ صدر اور وزیر اعظم کا ایک حسین امتزاج اس قوم کو اتنی آسانی سے میسّر آ جائے گا، کہ بین الاقوامی سازشیں اچانک دَم توڑ جائیں گی، دشمنوں کے گھروں میں پریشانی ڈیرے ڈال دے گی اور دین دنیا کے راستے آسان ہو جائیں گے۔ حاسدین کو مذید اطلاع ہو کہ قائدین کی یہ جوڑی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کسی اور کی نہیں بلکہ خود مولانا کے ساتھ بحیثیت صدرِ پاکستان بن رہی ہے۔

کپتان اور مولانا کی شخصیات میں بہت سی مشترکات ہیں اتنی ذیادہ کہ جیسے دونوں ایک ہی شخصیت کے دو نام ہوں۔ مثلاً کپتان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف انھی کی شخصیت اس ملک کے مسائل کے حل کے لیے بہتر قیادت بن سکتی ہے اور مولانا بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں، اُن کے خیال میں بھی وہ یعنی خود مولانا قوم کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

مولانا اور کپتان دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں اُنھی کی پارٹی کی حکومت ہونی چاہیے البتہ دونوں کی پارٹیاں الگ الگ ہیں۔ کپتان چاہتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہیں، جب کہ مولانا بھی یہی چاہتے ہیں کہ کپتان وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہیں بلکہ کپتان وزیر اعظم ہی نہ رہیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں میں تنوع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مولانا بعض معاملات پر کپتان سے اتفاق نہیں کرتے اور کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر کپتان مولانا سے متفق نہیں ہیں۔ البتہ یہ کوئی اہم معاملات نہیں ہیں۔

مثلاً دونوں خود کو بڑا لیڈر سمجھتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو لیڈر نہیں سمجھتے۔ مولانا کپتان کو غیر سنجیدہ سیاست دان کہتے ہیں، حالاں کہ کپتان ہمیشہ اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کیے رکھتے ہیں۔ مولانا خود اکثر مسکراتے اور بعض اوقات قہقہے تک لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ دونوں اکثر سفید کرتا شلوار میں ملبوس نظر آتے ہیں، جب کہ کپتان کے پاس کم از کم ایک سرخ کرتا بھی موجود ہے۔ البتہ ہماری اطلاع کے مطابق مولانا نے ابھی کسی رنگین کرتے کا انتظام کرنا ہے۔

مولانا نے خود کو اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی صلح صفائی کرانے پر مامور کر رکھا تھا، کہ اتحاد بنانے اور اتحاد توڑنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، صلح کروانے کے عمل کے دوران، اپنے دوسرے ہی پھیرے میں دل پر قابو نہ رکھ سکے اور خود کو کرسی صدارت کے جان جوکھم کے لیے برضا و رغبت پیش کر کے قوم کو خوش گوار حیرت میں ڈال دیا۔

مولانا کا قوم کو یہ مژدہ سنانا تھا کہ قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ بالآخر مولانا نے قومی قیادت کا فریضہ اپنا سر لے ہی لیا اور اس قحط الرجال کے دور میں قوم کو بالعموم اور عالمِ اسلام کو بالخصوص ایک توانا قیادت میسّر آ گئی۔ اب جب کہ مولانا کرسی صدارت سے محض چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہیں اور کرسی صدارت مولانا سے محض چند ووٹ دور، صورت احوال یہ ہے کہ ایک طرف آدھی سے کچھ زیادہ اپوزیشن کے امیدوارِ صدارت مولانا خود ہیں، جب کہ مولانا کی اجازت سے حکومتی جماعت کے امیدوار نیم مولانا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار غیر مولانا ہیں۔

اشکال یہ آن پڑی ہے کہ ہمارے ملک کے آئین کے مطابق، صرف ایک ہی شخص کو ملک کے صدر کے منصب پر بٹھایا جا سکتا ہے۔ آئین بنانے والوں کو شاید اس کا انداذہ نہ تھا کہ کسی دور میں جب ملک گونا گوں مسائل کا شکار ہو گا اور تین تین نابغۂ روزگار رہ نما صدارت کے منصب کے لیے مہیا ہوں گے تو ایک امیدوار کے منتخب ہونے سے باقی دو کا دل ٹوٹ جائے گا۔ اگر ایک کی بجائے تین صدر بنانے کی گنجائش ہوتی، تو قوم اب اس ذہنی کوفت سے بچ جاتی۔

دوسرے، مولانا کو الیکشن ڈے تک انتظار کرنے کی زحمت بھی نہ کرنا پڑتی۔ ہمارے پاس اس مشکل سے نکلنے کی ایک تجویز ہے۔ وہ یہ کہ مولانا کو صدر بنا دیا جائے، علوی صاحب کو کشمیر کونسل کا چیئرمین کہ الیکشن میں ان تھک محنت کرنے کے بعد اب وہ آرام کے حق دار ہیں، اور چودھری اعتزاز صاحب کو کوئی مناسب بحالی تحریک پر متعین کر دیا جائے۔ اس سے نہ صرف سب کی روزی روٹی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، بلکہ مولانا کی جائے اقامت کا بھی۔

اگرچہ آئین ایسی کوئی پابندی نہیں لگاتا کہ صدارت کا امیدوار شخص اس سے پہلے جن مناصب پر فائز رہا ہو، اس کا حق ادا کر دیا ہو، نہ ہی پاکستانی قوم نے اس بات پر کبھی اصرار کیا ہے۔ خیر صدر بننے کے لیے اگر یہ شرط بھی ہوتی تو مولانا اس شرط کو بھی کما حقہٰ پورا کرتے ہیں کہ جس کشمیر کونسل کے چیئرمین مولانا تقریباً اٹھارہ برس رہے اس نے اپنے مقاصد مولانا کے چیئرمین بننے کے چند ہفتوں میں ہی حاصل کر لیے تھے کہ مولانا جیسے مخلص اور ان تھک محنت کرنے والے شخص کی قیادت کا بوجھ سہار لیا تھا۔

جب آپ اپنا کام ابتدائی چند ہفتوں ہی میں کر لیں، تو بقیہ اٹھارہ سال آپ ایسے ہی فارغ البالی سے گزار سکتے ہیں، جیسے مولانا نے گزارے۔ اگر مولانا پچھلے الیکشن میں بین الاقوامی سازشوں کا شکار نہ ہوتے یعنی الیکشن نہ ہارتے تو یقین ہے کہ مولانا ہمیں منصبِ صدارت کے لیے دستیاب ہی نہ ہوتے اور جو دل چسپ جوڑی وزیر اعظم اور صدر مملکت کی بننے جا رہی ہے، عوام اس سے محظوظ نہ ہو پاتے۔ اب دیکھنے کی بات صرف یہ رہ گئی ہے کہ کون کون مولانا کو ووٹ نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).