جدید کتے – ایک تمثیل


انسانی جبلت بھی ناقابل فہم ہے۔ بنیادی طور پر جدید دور کا انسان خود غرض ہے اور اس کے تعلقات کی نوعیت اس کے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ وہ انا پرست بھی ہے اور اپنی انا کی تسکین کے لیے ہر ممکن کوشش کرتاہے۔ چاہیے دوسروں کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آپ نے وہ خود سر امیر زادے تو دیکھے ہوں گے جو اپنی ذرا سے جنسی اور نفسیاتی تسکین کےلیے چوری کرتے اور دوسروں کی بیٹیوں کی زندگی اجاڑ دیتے ہیں اور مائیں کہتی نہیں تھکتی کہ بچہ ہے۔ غلطی ہو گئی۔ کیا عجیب صورت حال ہے۔

دوسری جانب اگر یہ خواہش اقتدار کو لے کر ہو جائے تو پھر بغیر کسی کارکردگی اور منشور کے چور راستوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ حکمران وقت کے خلاف مہم شروع کر کے جھوٹ اتنی شدت سے بولا جاتا ہے کہ پہلے سے ناراض لوگ نہ صرف یقین کرتے ہیں۔ بلکہ ان مسیحاوں کی اندھی تقلید بھی شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ سوچے بغیر، سمجھے بغیر۔

مگر کیا صرف خواب دکھا کر دوسروں کو گندہ کر کے دوسری سیاسی پارٹیوں سے بندے توڑ کر اقتدار میں آنے والے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خواب فروش تعبیر کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس جانب کسی کی توجہ نہیں گئی۔ بس وہ ہمیں پسند ہے۔ اس کا غلط بھی صحیح۔ کم بخت اس محبت کی یہ بڑی خامی ہے کہ اس کی برائی بھی برائی نہیں لگتی۔

کچھ دن پہلے منیر انور بھائی سے اسی سیاسی انتہاپسندی کے موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے کچھ لکھو۔ مگر کالم نہیں فکشن۔ بھیا میں تو خانیوال سے اگے گاؤں میں ہوں۔ واپسی پر انشاء اللہ۔

میری جانب سے بات آئی گئی ہو گئی مگر ان کو لگ گئی تھی۔ آج ہی ان کی طرف سے واٹس اپ پر یہ کہانی موصول ہوئی۔ جس میں کئی سوالوں کے جواب مل گئے۔ منیر انور بھیا لکھتے ہیں۔

یہ حقیقتاً پہلی دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بستی میں رواج سا ہو گیا تھا کتے رکھنے کا۔ حتیٰ کہ کتے سٹیٹس سمبل اور بڑائی کی علامت بن چکے تھے۔ ہر وہ ”بڑا“ جو عام لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور کتوں کی بھونک سے خوفزدہ کر کے خود سے دور رکھنا چاہتا تھا اور یہ بھی چاہتا تھا کہ یہ لوگ وہی سنیں جو اس کی مدح میں ہو، وہ زیادہ سے زیادہ بھونکنے والے کتے دوسروں سے زیادہ تعداد میں رکھنے کا خواہشمند تھا۔

یوں اس بد قسمت بستی میں احترام و خلوص کا جنازہ اٹھ چکا تھا لیکن عام لوگوں میں یہ جنس اب بھی موجود تھی۔ کتے پالنے والوں کے درون خانہ تعلقات جیسے بھی ہوں بظاہر سب ایک دوسرے پر اپنے اپنے کتوں کے ذریعے وار کرتے رہتے تھے۔

ایک دوسرے سے براہ راست کتوں کی خرید و فروخت ان میں غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا لیکن یہ ایک دوسرے کے زیادہ بلند بھونکنے والے کتوں پر نظر رکھتے تھے اور بالواسطہ ہر جائز و ناجائز ذریعے سے مطلوبہ ”کار آمد“ کتوں کا حصول جائز جانتے تھے۔

کبھی کبھی کوئی کتے رکھنے والا کسی خارش زدہ کتے کو اپنے دربار سے بے دخل بھی کر دیا کرتا تھا۔ ہوا یوں کہ ان سب کے غیر تحریری معاہدے (کہ عام لوگوں کو بے وقوف بناؤ اندر سے سب ایک رہو) کے بر عکس دو خاندانوں میں معمول سے کچھ زیادہ چپقلش ہو گئی۔

دونوں نے نہ صرف اپنے اپنے کتوں کے گلے سے زنجیریں کھول کر متحارب پر بھونکنے اور کبھی کبھی کاٹنے کی بھی کھلی چھٹی دے دی، بلکہ ایک دوسرے کے کچھ سرکش کتوں کے حصول کی کوششیں بھی شروع کر دیں۔

ایسے حالات میں بستی کے پہرے داروں کو فکر لاحق ہوئی کہ اس اندرونی کشمکش سے کہیں کوئی بیرونی خطرہ بستی پر نازل نہ ہو جائے سو انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ایک کم تر ذہنی صلاحیت کے حامل سربراہ خاندان سے کچھ شرائط کی بنا پر معاہدہ کر کے دوسرے خاندان کے کتے حاصل کرنے میں اس کی مدد شروع کر دی۔

تھوڑے ہی عرصے میں کتوں کے حوالے سے طاقت کا توازن اس کم تر ذہنی قوتوں والے سربراہ کے حق میں ہو گیا۔ اس کے کتے دن رات اس کی صدا کو برتر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کے بھونکنے لگے۔

عام لوگوں میں سے زیادہ تر ان کتوں کی ہمہ قسم مضرت رسانیوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ان کے ہمنوا ہو گئے۔ نتیجتاً بستی کی سرداری بھی اسی خاندان کے حصے میں آئی۔ لیکن بہت بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب وہ ابھی سرداری کے اختیارات سے لطف اندوز ہونے ہی لگا تھا کہ اس کے مختلف ذرائع سے حاصل کردہ کتوں میں سے کچھ اپنی پسند کا راتب نہ ملنے کی وجہ اسی پر بھونکنے لگے۔

ایسے میں مورخ نے لکھا کہ کتا آخر کتا ہوتا ہے جس کا اس جدید دور میں وفا دار ہونا ضروری نہیں۔ پھر نشے کی کیفیت میں ناجائز ذرائع سے نسل کا تعین کیے بغیر حاصل کیا گیا کتا بہت سے بھی زیادہ کتا ہوتا ہے۔ کہانی تو ختم نہیں ہوئی لیکن مورخ کچھ انتظار کرتے ہوئے زیادہ باریک بینی سے حالات کا تجزیہ کر رہا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اب یہ کمزور ذہنیت کا زیادہ کتوں کا حامل سربراہ کب اور کیسے ان سے جان چھڑاتا ہے۔ چھڑاتا بھی ہے یا اپنی سرداری قائم رکھنے کے لئے ان کو اپنے راتب میں شریک کرتا ہے۔

فیصلہ ہم نے کرنا ہے ملک سیاست دانوں کی شخصیت کے گرد نہیں گھومتے نہ ہی دعووں پر نئی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہوائی قلعے لفظوں میں اچھے لگتے ہیں حقیقی زندگی سے ان کا تعلق نہیں۔ پاکستان کو اس وقت فہم و فراست کی حامل قیادت کی ضرورت ہے جو 71 سال پہلے ہی خاک میں جا سوئی تھی اب جو ہے بس خواب فروش ہے جن پر اعتبار کر کے ستر سال گزار بیٹھے چھوٹے ڈاکو کے بعد بڑا ڈاکو ہی ملتا ہے۔ کہانی خوبصورت ہے اس کا لطف اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).