عزت و ذلت


ہمارے یہاں ہمدردی صرف خواتین، فلسطین اور مرحومین سے ہی ہوتی ہے. مگرقابل ہم دردی ایک ایسی جماعت ہے جس کی اطاعت لاجواب ہے۔ کہتے ہیں کہ دل کا بھید، اور موزے کا چھید ہر کسی کو نہیں دکھاتے مگر کیا کریں کہ انھیں عطار کا لڑکا ہی ملتا ہے۔ یہ زمانے کی غلطیاں، عیاں کر کے داستاں تو بناتے ہیں، مگر خود کے گریباں میں جھانکے سے گریزاں ہیں۔ ان کی گفت گو میں یہ آرزو چہار سو دکھائی دیتی ہے کہ رُو برو کی آب رُو کا لہو کر دیں۔ بے شمار شہ سوار بے قرار ہو کر اپنی گفتار سے غبار کا اظہار کرتے ہوئے اپنا کردار آشکار کر دیتے ہیں۔ ان کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کے فرصت میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ ایسی گفت گو سے سمجھ نہیں آتا کہ یہ قنوطیت کا قصیدہ ہے یا تربیت کا مرثیہ۔

یہاں ہر ایک کے پاس نار ابراہیم تو ہے مگرصبر یعقوب مفقود ہے۔ یہ قبیل اپنے لیے بہترین وکیل اور مخالف کی دلیل کی تذلیل کرنے میں شہرہ رکھتے ہیں۔ یہ ان کا کمال ہے کہ سوال اگر نہال کا ہو تو جواب میں طلال، اقبال،دانیال تو ملے گا مگر مجال ہے کہ نہال کی مثال بھی مل جائے۔ دوسروں کے پول تو ڈھول بجا کر کھول دیں گے مگر اپنے جھول کو گول مول کر جائیں گے۔ ادھورا سچ، جھوٹ سے بھی زیادہ شرارا بن سکتا ہے۔

ایک عمومی دلیل مخالفین کی تذلیل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آئنے میں چہرے پر داغ دیکھنے پراپنا ابال آئنے پر نکال دینا۔ یہ جاں نثار شہ سوار تکرار کے انحصارپر اغیار میں اپنی بات کا پرچار کرنا چاہتے ہیں۔ ان جوابات کا سوالات سے اتنا ہی تعلق ہےجتنا شیونگ کریم کے اشتہارات میں خاتون کا مصنوعات سے۔ اس ماحول میں صرف و ہی شخص نفسیاتی مریض نہیں ہو سکتا، وہ جو پہلے ہی ہے۔ کسی کی اُمید ہو یا وعید، بنا تمہید اس کی تنقید کرنے کی ناقابل تردید صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر حرم میں بھی تو لوگ مفت کا زم زم چھوڑ کر پیسے دے کر کولا پیتے ہیں۔

اب ایسے میں کوئی فرد ہو یا ہم درد جوابات سے اس کی ذاتیات پر سوغات کی ایسی عنایات کرتے ہیں کہ اُسے اپنی حیات سے وفات بہتر لگنے لگتی ہے. ایسی صورت احوال میں عموما جلد قافیہ ہی نہیں بلکہ جغرافیہ بھی تنگ ہو جاتا ہے۔ انھیں نصیحت کرنے سے پہلے خود وصیت کر لینا چاہیے۔ ان سےبات کرتے ہوئے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے سڑک کی تیز قطار میں کوئی سست رفتار آپ کے سامنے محو سفر ہو۔ ایسے میں وہ اشخاص جو اخلاص سے اُن کے امراض بتانے پر ناراض نہیں ہوتے، یا تووہ ولی اللہ ہیں یا بہرے ہیں یا پھر اغراض سے نا واقف ہیں۔

اگلے زمانوں میں تربیت کا شریعت کی طرح خیال رکھا جاتا تھا، مگر مواصلات کی بہتات نے ترجیحات ہی بدل دی ہیں۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ تہذیب کو کسی رقیب یا غریب کی طرح قریب ہی نہ پھٹکنے دیا جائے۔ شاید ابن آدم کو یہ غفلت ہے کہ اُسے عزت، ذلت، حرمت اور عصمت پر قدرت حاصل ہے۔

ذیشان امجد
Latest posts by ذیشان امجد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).