جنگل کا آقا


گئے دنوں کی بات ہے، جب انسان غاروں سے نکل کر بستیاں بنانے کا سوچ رہا تھا۔ تعمیرِ نو کی فکر نے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ دی تھی۔ انھی دنوں مشرق کی سمت میں ایک جنگل ارتقا کی تمام تر منازل طے کرتا جا رہا تھا۔ جنگل میں داخلے کے چند مخصوص راستے تھے، جانوروں کو باقی کسی راستے سے گزرنے کی اجازت نہ تھی۔ ان راستوں پر پہرہ سخت تھا اور طاقتور جانور دشمن کے مقابلے کے لیے ہر پل مستعد رہتے۔ نظم و ضبط، رسوم و رواج اور تہذیب و تمدن ممکن ہے انسانوں نے جانوروں ہی سے سیکھے ہوں۔ وہ جنگل ہر طور باقی سب جنگلوں سے کہیں افضل تھا۔

ہر قسم کے جانوروں سے چند ذہین چن لیے جاتے اور انھیں غور و فکر، تنقید و تصنیف کے لیے مخصوص کر لیا جاتا۔ ان سے کوئی اور کام نہیں لیا جاتا تھا۔ وہ جنگل میں پھرتے، خوبیاں و خامیاں ڈھونڈتے، جانوروں کی خیر خواہی میں زندگی گزا ر دیتے۔ ان کے جسم پر سبز نشان لگایا جاتا اور خیر خواہ کے لقب سے نوازا جاتا۔ جانوروں میں انھیں نمایاں مقام حاصل تھا۔ ارتقا کی آرزو انھیں ہر ایک سے الگ بنائے ہوئے تھی۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں جینے کے ہر رنگ کو سراہا جاتا۔ وہ جانوریت کو نظم و ضبط کے معنوں میں دیکھتے اور اپنے جانور ہونے پر فخر محسوس کرتے۔

جنگل کی تقسیم جانوروں کی آبادی کے لحاظ سے کی گئی تھی۔ تقسیم کے دوران جانوروں کی ضروریات اور قدرتی سہولیات کو مدِ نظر رکھا گیا تھا۔ خانہ جنگی سے بچنے کے لیے جانوروں کو ان کے گروہ میں رہنے کی تلقین کی گئی۔ اقلیتوں کے لیے قوانین بہرحال موجود تھے اور انھیں قوانین کے اندر رہ کر، چین سے جینے کا حق حاصل تھا۔

سال کے مخصوص موسموں میں جنگل کو نئے سرے سے سنوارا جاتا۔ درختوں کی خوب صورتی پر خاص توجہ دی جاتی۔ پھولوں کی ایک کثیر تعداد پہلے ہی اگا لی جاتی۔ پھر جنگل کے ہر کونے میں بھیج دیے جاتے۔ جنگل کی خوب صورتی کے لیے ہر جانور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ ہر کام کے لیے موزوں جانور چنے جاتے۔ مختلف ٹیمیں تشکیل دی جاتیں اور اچھے کام کو سراہا جاتا۔

جنگل کا بادشاہ، جسے وہ آقا کہہ کر پکارتے، اپنے بہترین مشیروں کے ہم راہ، پورے جنگل کا دورہ کرتا اور بہترین کام کرنے والوں میں انعامات تقسیم کرتا۔ ہر جانور اپنی حوصلہ افزائی کی قدر کرتا، آقا کے مشوروں کو اگلے موسم کے لیے محفوظ کر لیتا۔ وہ خود غرضی، حسد، کینہ و بغض کو نا پسند کرتے۔ محبت کی ترغیب دیتے۔ اور محبتیں ہی بانٹتے تھے۔ ایک دوسرے کو دعوت پر بلاتے۔ دعوت کی کامیابی کو اپنی خوش نصیبی تصور کرتے۔ دوسرے جنگلوں سے مہمان بلائے جاتے، ان کی خدمت کر کے تعریف کے بول سننا بہت پسند کرتے۔

دوسرے جنگلوں کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، وہ مدد کے لیے آتے اور انھیں عزت ملتی۔ جب کبھی کسی اور جنگل کے جانوروں کو پناہ چاہیے ہوتی، یہ جنگل ان کے لیے ہر طرح سے موزوں تھا۔ دشمن اس جنگل میں قدم نہیں جما پاتا تھا۔ وہ ظلم کے سخت خلاف تھے اور ظالموں کے خلاف جہاد، ان کے لیے باعثِ فخر تھا۔ اس جنگل کے جنگ جو دوسرے جنگلوں کے حق میں لڑنے کے لیے جب بھی بھیجے گئے، کامیابیاں ان کا مقدر ٹھیریں۔

نا حق قتل و غارت کو وہ جرم سمجھتے، جب کبھی کسی پر جرم ثابت ہوتا تو کسی کی سفارش قبول نہ کی جاتی۔ ہر علاقے کے لیے انھی کی برادری سے منصف طے کیے جاتے، منصف سب کے لیے فیصلہ انصاف پر مبنی سناتا اور اسی پر عمل کیا جاتا۔ منصف کی بات کی قدر کی جاتی، اور سب بخوشی تسلیم کرتے۔ چھوٹے موٹے معاملات علاقائی وزیر طے کرتا اور بڑے جرائم کے لے آقا کی عدالت میں حاضری دی جاتی۔ آقا لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا اور معاملات کو تحمل کے ساتھ اس طرح نپٹاتا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچتی۔

یہ جانور نہ صرف جنگ جو تھے، بلکہ کھیلوں کے میدان میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ جنگل میں ہر وقت کہیں نہ کہیں چہل پہل جاری رہتی۔ جانور اپنے خوشی کے موسم میں کھیلوں کے علاقائی مقابلے منعقد کراتے اور خود کو سالانہ مقابلے کے لیے تیار کرتے۔ سالانہ مقابلہ ایک طرح سے میلہ تھا۔ یہ بہار میں منعقد کیا جاتا ۔ جسے دیکھنے کے لیے دور دراز کے جنگلوں کے جانور بھی آتے۔ کئی کئی ماہ پہلے تشریف لے آتے، اس میلے کے لیے ہر ایک خود کو تیار رکھتا اور کسی طرح میلے میں حصہ لیتا۔ کچھ کھیلوں میں، کچھ گیتوں، کچھ جرات دکھانے میں تو کچھ مفید مشورے دینے میں، آگے بڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ چھوٹے بڑے سب اس میلے میں اپنا ہنر دکھاتے اور سراہے جاتے۔

اس میلے میں جنگل کے آقا کا انتخاب نئے سرے سے کیا جاتا جو میلے کو چار چاند لگا دیتا۔ یہی خاص بات تھی جس کے لیے باقی جانور اپنے کام کاج چھوڑ اس میلے سے ضرور لطف اندوز ہوتے اور اپنے آقا کو مبارک باد دیتے۔ اول سب جانوروں کے مقابلے ہوتے۔ گزشتہ آقا انعامات تقسیم کرتا۔ یہ سلسلہ دنوں تک چلتا رہتا۔ پھر آخر میں ایک کھلے میدان میں شیروں کا مقابلہ ہوتا۔ ہر شیر کو اجازت تھی کہ وہ مقابلہ جیت کر بادشاہت حاصل کر سکے ۔لیکن یہ یقینا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ بادشاہت کسی مذہبی عہدے جیسا مقدس مقام حاصل تھا اور بادشاہ کو خصوصی امتیاز حاصل ہوتا۔ بادشاہ جنگل کے مالک ایسا مقام رکھتا تھا۔ سب جانور دل سے آقا کا ادب کرتے۔ آقا کی ہر بات پر عمل کیا جاتا۔

بادشاہت کے مقابلے میں صرف ایک اصول تھا، دوسرے کو مات دینا۔ ایک کو ہار تسلیم کر کے دوسرے کو آقا تسلیم کرنا ہوتا تھا یا پھر اس کا مقد ر موت بنتی۔ یہ مقابلہ دلیری کی علامت تھا، ہارنے والا ضرور جیتنے والے کو آقا تسلیم کرتا۔ یہ ایک مثالی جنگل تھا اور باقی جنگلوں کے جانور اس کے قوانین سے مستفید ہو رہے تھے۔

دور دراز تک ان کے چرچے تھے، آزادی اور برابری جیسے ان کے خون میں رچ گئی تھی۔ ان کا مذہب ملن ساری، ایثار اور قوانین کی پاس داری تھا۔ جو خلاف ورزی کرتا گویا کافر تھا۔ سب جانوروں کے مساوی ہونے کا بول بالا تھا۔ کسی کو حق حاصل نہ تھا کہ ظلم کرے اور آزادی سے دندناتا پھرے۔ ان کے سارے قوانین شفاف اور ہر شے واضح تھی۔ لیکن ایک بات جو باقی جنگلوں سے چھپائی جاتی تھی، یہ تھی کہ آقا جب چاہتا، جس جانور کو کھانے کی خواہش کرتا، وہ آقا کے حضور خود کو پیش کر دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).