\”کرپٹ\” زرداری اور آف شور زدہ فرشتے


\"imamحیرت سی حیرت ہے کہ پاکستانی میڈیا کے مطابق دنیا کے کرپٹ ترین اور قابلِ نفرین شخص یعنی آصف علی زرداری کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ہے۔ 1987ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ وطنِ عزیر میں یہ معجزہ رونما ہوا ہے، جس کی وجہ سے، موضوع چاہے کوئی بھی ہو، زرداری پر تبریٰ بھیجنے والے کافی مشکل میں ہیں۔ یہ حادثہ تو بیرونِ ملک سے کمبخت آئی-سی-آئی-جے نے کر دیا ہے ورنہ کس کی مجال کہ اِن کے مستقل وِلن کو بدلا جا سکے۔ گو کہ آصف علی زرداری کی پارٹی کے ایک سینیٹر عثمان سیف اللہ خان کا نام پانامہ پیپرز میں ضرور آیا ہے مگر اُن کا یا اُن کے خاندان کے کسی فرد کا نام نہ ہونے کے باوجود کچھ بدطینت میڈیا ہاؤسز نے شروع میں اپنے خود ساختہ پانامہ پیپرز جاری کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر اصل خبروں کا ذریعہ اِنٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جنرنلسٹس (ئی-سی-آئی-جے) ہے، جس کی وجہ سے مریضانہ رویئے میں مبتلا وارداتیئے اپنی کارروائی نہ ڈال سکے اور ناکام  رہے۔

یاد رہے کہ اِس حقیقت کے باوجود کہ غیر سیاسی اداکاروں اور طالع آزماؤں کی شبانہ روز سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مفلوج زدہ جمہوریت کا اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی تشخص بحال کرنے جیسا عظیم کارنامہ اِنجام دینے اور قدم قدم پر جمہوریت کے آگے ڈھال بننے والے آصف علی زرداری کے خلاف سب مقدمے اور الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں (فقط ایک بے ضرر اثاثہ جات ریفرنس جاری ہے) اور وہ عمر قید جتنا عرصہ بے گناہ جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ نیز، مقدمے بنانے اور الزامات لگانے والے آصف علی زرداری سے معافیاں بھی مانگ چکے ہیں۔ مگر اِن کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کا بغض ہمیشہ کی طرح آج بھی پورے عروج پر ہے اور اِن کے خلاف ہمیشہ کی طرح لمبی زبانوں کے ساتھ نفرت اور جھوٹے الزامات کا مسلسل اُبلتا ہوا متفعن طوفان جاری ہے۔

ٹھہریئے، لمحہ بھر کے لیے سوچیئے! اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی ہوتے اور پی پی پی بھی مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ اِنصاف کی طرح آف شور کمپنیز میں ملوث ہوتی تو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی سانسوں کے اُتار چڑھاؤ تک پر گہری نظر رکھنے والے کیا حشر بپا کرتے؟

حالیہ برسوں میں آصف علی زرداری کے سویلینز میں سے بدترین مخالفین میں سرِفہرست شریفین، عمران خان اور پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ رہا ہے، جو سب اپنے تئیں پاک دامن فرشتے ہیں، جس کا وہ بھرپور پرچار بھی کرتے ہیں۔ چشم فلک گواہ ہے کہ اِن \”فرشتوں\” کی طرف سے کوئی گالی، دشنام، الزام اور طعنہ نہیں رہ گیا، جو زرداری پر نہ آزمایا گیا ہو۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جس نے پانامہ پیپرز کے ذریعے پاکستانی عوام کے سامنے اِن خودساختہ فرشتوں کے پیرہن کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے ذریعے کمائی گئی وافر دولت کو آف شور کمپنیوں میں چھپانے والے یہ \”فرشتے\” اپنے باکمال فن کے ساتھ روز پنیترے بدلتے ہیں (یہ سمجھنا تو اِنتہائی بے وقوفی ہو گی کہ حلال کی کمائی آف شور کمپنیوں کے ذریعے چھپائی گئی ہے) اور نِت نئے روپ دھارتے ہیں مگر عوام کے سامنے یہ پہلے سے بھی زیادہ برہنہ ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ بے بسی کے عالم میں خود اپنی زبان سے اپنے ہی خلاف گواہیوں کے انبار لگا رہے ہیں اور اپنی کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔

کرپشن، لوٹ کھسوٹ، رشوت، دھونس اور دھاندلی کے بل بوتے پر سیاست کرنے والے شریفین زندگی میں پہلی بار نازک دور سے گذر رہے ہیں۔ یہ خاندان وطنِ عزیز کی آںیوالی نسلوں کو گروی رکھ کر مہنگے قرضوں سے میڈیا پر خطیر رقم کی بارش کرنے میں یدِ طولٰی رکھتا ہے، جس کے بدلے میں مال کہیں سے بھی آئے، آنے دو، پر کامل ایمان رکھنے والا میڈیا بھی اِن کی خدمت کرنے کے سلسلے میں پورا پورا حق ادا کرتا ہے۔ پانامہ لیکس آنے کے بعد پاکستانی میڈیا میں اِنتہائی فضول اشتہارات پر روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے دان کرنے کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ مگر جیسے ہی خاندانِ شریفاں کا کوئی فرد لب کھولتا ہے، یہ لوگ پانامہ دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں اور میڈیا بھی اپنی تمام کاریگری کے باوجود بے بس ہے۔ وزیرِ اعظم میاں محمد نوازشریف بذاتِ خود دو بار قوم سے خطاب اور ایک بار پارلیمنٹ میں پانامہ کے شکنجے سے جان چُھڑانے کی بھرپور کوششیں فرما چکے ہیں مگر معاملات پہلے سے بھی زیادہ اُلجھ گئے ہیں اور بات حسن، حسین، مریم اور نواز شریف سے ہوتی ہوئی جدِامجد میاں محمد شریف تک جا پہنچی ہے۔ اگر شریفین سچے ہوتے تو میاں نوازشریف \”سُوال از آسماں جواب از رِیسماں\” (سوال کچھ اور جواب کچھ) کا رویہ چھوڑ کر فقط پانچ منٹ میں ایف بی آر، سٹیٹ بنک آف پاکستان اور الیکشن کمیشن سے ناقابلِ تردید ثبوت پوری قوم کے سامنے پیش کر کے سب کے مُنہ بند کر سکتے تھے۔

شریفین پروپیگنڈے کے میدان میں اسی کی دھائی سے راج کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اِس میدان میں عمران خان نیازی چند برسوں سے شریفین کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو یقینی طور پر ایک عادی تہمت طراز منوا چکے ہیں جو بچہ لوگوں کے سامنے ہمہ وقت جھوٹ کا دفتر کھولے بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید یہ ان کا نفسیاتی عارضہ ہے، جو یہ کسی مخالف شخص کی توہین کرنا اور اُس کے چہرے پر تھوکنے میں جِتنی عجلت سے کام لیتے ہیں، بعد میں اُسی ہی شخص کے حمایتی بننے پر اُس کے چہریے کو چومنے میں پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر پھرتی دکھاتے ہیں۔ گو کہ عمران خان نے آف شور کمپنیوں میں اپنے بدلتے مواقِف سے کافی پوائنٹ سکور کیے ہیں مگر وہ اِس میدان میں شریفین سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ اگر جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور علیمہ خان کی آف شور کمپنیوں کے طشتِ ازبام ہونے سے قبل، بعد اور عمران خان کی اپنی 1983ء میں بنائی گئی آف شور کمپنی کے اعتراف پر قوسِ قزح ایسے رنگ بکھیرتے مختلف موقف دیکھے جائیں تو آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔

ٹیکس ایمنسٹی یعنی کالا دھن سفید کرنے والی سکیموں کو عمران خان ایک مُدت سے سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وہ علی الاعلان کہتے رہے ہیں \”جو لوگ کالا دھن سفید کرنے والی سکیموں کے ذریعے ٹیکس چُراتے ہیں وہ چوری سے پیسہ بناتے ہیں\”۔ کِسی کے وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ عمران خان بذاتِ خود سنہ 2001ء میں اپنے لندن والے فلیٹ کے سلسلے میں کالا دھن سفید کرنے والی سکیم سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔

جب عام پاکستانی عمران احمد خان نیازی کے آف شور کمپنیوں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کے بارے میں کسی پریشانی اور شرمندگی کے بغیر بدلتے ہوئے موقف دیکھتا ہے تو وہ اِن کے باکمال اعتماد کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ساتھ میں لاتعداد وسوسوں میں بھی گِھر جاتا ہے کہ باقی معاملات، جن کے بارے میں عمران خان ببانگ دہل دھاڑتے ہیں، اُن میں بھی موصوف نے ناجانے کیا گُل کِھلائے ہوں گے؟

شریفین اور عمران خان جھوٹ کے سوداگر ہیں، فرق فقط اِتنا ہے کہ شریفین باقاعدہ منصوبہ بندی سے جھوٹ بولتے ہیں اور عمران احمد خان نیازی بے تکان۔ مگر اِنجام دونوں کا بھیانک ہے کیوںکہ جھوٹ کی ناؤ بہت زیادہ دیر نہیں چلتی۔

مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کا غلیظ طوفاں بپا کر نے والے ایک سرکردہ میڈیا گروپ کے مالک بھی آف شور زدہ نکلے ہیں، جن کا تکیہ کلام ہے \”میں بیس کروڑ دماغوں کو کنٹرول کرتا ہوں۔ میں ہی حکومتیں بناتا اور گِراتا ہوں، میں خبر دینے والا نہیں بلکہ خبر بنانے والا ہوں\”۔ یہی محاورہ موصوف نے 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے فوراً بعد صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے سامنے بھی دہرایا تھا۔ جب زرداری نے حکومتی خزانے سے چار ارب روپے ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ آںجناب کا اِصرار تھا کہ پرویز مشرف حکومت میں اُس کے کاروبار کا نقصان ہوا ہے۔ اِس لیے حکومت یہ نقصان ادا کرے۔ بعد میں جب اِس گروپ نے اپنے نو ارب روپے کے واجب الادا ٹیکس کی خصوصی معافی کے لیے فائل آصف علی زرداری کے پاس بھیجی تو انھوں نے ٹیکس بھی معاف کرنے سے اِنکار کر دیا۔ جب یہ ٹیکس بڑھتا بڑھتا تئیس ارب تک پہنچ گیا تو واجب الادا ٹیکسوں کے کئی دوسرے ڈیفالٹر اداروں کی طرح اِس میڈیا گروپ نے بھی تَھوک کے حساب سے سٹے آرڈرز کے ہَول سیل اتھورائزڈ ڈیلر اور انصاف کے \”علمبردار\” یعنی اُس وقت کے چیف جسٹس اِفتخار محمد چوہدری کی عدالت سے سٹے آرڈر لے لیا۔ بعد میں یہ ٹیکس معاف کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بھی درخواست بھیجی گئی تھی۔ یہ بات سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اِس درخواست پر کیا فیصلہ صادر فرمایا ہو گا۔ گو کہ آصف علی زرداری کے اِنکار کے بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ کیسے اِس میڈیا گروپ نے پی پی پی کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر کے من گھڑت خبریں بنانے کے اپنے دعوٰے کو سچ ثابت کیا اور لمحہ موجود میں مذکورہ میڈیا گروپ کی خبریں شریفین سے گہری محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رِوایت شکن آصف علی زرداری کا اپنے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے بارے میں نکتہ نظر حیرت انگیز ہے۔ انھوں نے آف شور زدہ فرشتوں کے برعکس کبھی بھی پارسائی کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی جھوٹے الزامات کے جواب میں نچلی سطح پر آ کر جواب دینا گوارا کیا۔ جب کسی صحافی نے اُن کے سامنے کریکٹیر بلڈنگ مہم کی تجویز دی تو اُنھوں نے اِنتہائی بے اعتنائی سے مشورہ رد کر دیا۔ ایک بار جب اِن کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے بارے میں اِن کا ردِعمل پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا \”چھوٹی باتیں پریشان نہیں کرتیں، الزامات پر برا لگے تو استغفراللہ پڑھ لیتا ہوں\”۔

آصف علی زرداری نے ایک بار کہا تھا \”میری گردن اور زبان کاٹی گئی، آج تک میری زبان اور گردن پر زخموں کے نشان ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میری ذات کے خلاف یہ کس نے کیا تھا؟ اس کے باوجود ہم نے جمہوریت کی خاطر ذاتی بدلے نہیں لیے۔ ایک فلاسفی ہمارے مخالفوں کی ہے اور ایک فلاسفی ہماری ہے۔ یہ بات اُن کی سمجھ سے باہر ہے جِنھوں نے قُربانیاں نہیں دیں، جن کے گھر سے لاشیں نہیں اُٹھیں۔ ہم نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ میں نے سیاست کے ستائیس برسوں میں سے بارہ سال جیل میں گذارے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی جمہوریت کی جنگ میں گنوائی ہے۔ وقت آنے دو، وقت آنے دو، پروپیگنڈے سے جو چیز اُوپر جاتی ہے، وہ نیچے آتی ہی ہے۔\”

شاید وہ وقت آ گیا ہے!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments