پرانا ٹریفک وارڈن اور نیا عمران خان


بظاہر ٹریفک وارڈن اور عمران خان میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی مگر نجانے کیوں کل پیش آنے والے واقعے نے ان دونوں کے درمیان میری سوچ کو ایک نقطے پہ سوچنے پہ مجبور کیا ہے۔
کل سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک ٹریفک وارڈن شاہ وقت شیخ رشید احمد وفاقی وزیر ریلوے کے لئے راستہ صاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کسی راہ چلتے من چلے نے موبائل کی مدد سے نہ صرف ان مناظر کو کیچ کیا بلکہ ان مناظر کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیا۔ پھر وفاقی وزیر اور ٹریفک وارڈن دونوں ہی عوام کی نظروں میں مجرم ٹھہرے اور ہر بندے نے اپنی دانست کے مطابق دونوں کو اپنے اپنے موبائلوں کے ذریعے سزا سنائی۔

سنہ 2006 میں پنجاب اسمبلی کے موجودہ اسپیکر اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے صوبہ پنجاب کی سڑکوں پہ نہ صرف ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لئے بلکہ سڑک استعمال کرنے والوں کو سڑک استعمال کرنے کے متعلق تعلیم وتربیت کے لئے ایک نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹریفک وارڈن پولیس تشکیل دی جس کا مقصد عام روایتی پولیس کی رشوت ستانی اور بد معاشی سے ہٹ کر قانون کی تمام لوگوں پہ یکساں برابری اور فرینڈلی پولیس کلچر کا فروغ تھا۔

شروع میں ہم نے ان نوجوانوں کو بڑی مستعدی اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے بھی دیکھا اور امیر و غریب پہ یکساں قانون لاگو ہوتے بھی دیکھا۔ موسم کی سختیوں سے بے نیاز ٹریفک وارڈن جب بیچ چوراہے ٹریفک وائلیشن پہ ہمارا چالان کرتا تو ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتا اور ہم طعنع و تشنیع کے ایسے نشتر برساتے کہ بیچارہ دلبرداشتہ ہو کے رہ جاتا مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہی پڑھا لکھا ٹریفک وارڈن پاکستانی ماحول کو اپنے مطابق تو نہ ڈھال سکا مگر اسی روایتی پولیس ماحول کا حصہ بن کے رہ گیا۔

اب عمران خان صاحب اور ٹریفک وارڈن کی مماثلت جو ہمیں نظر آئی ہے وہ ٹریفک وارڈن اور عمران خان دونوں سے عوام کی حد سے زیادہ توقعات کا وابستہ ہونا ہے اور یہی توقعات کا بوجھ تنقید کی وجہ بنتا ہے۔

ٹریفک وارڈن کے سڑکوں پہ آتے ہی عوامی خیال یہی تھا کہ ہمارے تمام ٹریفک مسائل کا حل صرف ٹریفک وارڈن کی ڈیوٹی ہے جب کہ ہم یہ بات بھول گئے کہ ٹریفک وارڈن کے ساتھ کچھ فرائض ہم عام شہریوں کے ذمہ بھی ہیں جن کو ادا کر کے ہی ہم ٹریفک مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔

ٹریفک وارڈن کو ہم نے قانون کے پاسداری کے لئے اس معاشرے کے ناسوروں سے نہ صرف لڑتے اور مار کھاتے دیکھا ہے بلکہ اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کرتے بھی دیکھا ہے مگر جب بھی کسی طاقتورمجرم کے گرد قانون کا شکنجہ کسا گیا تو فوراً لاقانونییت کو پروان چڑھاتے بھیڑیے ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے ہوئے اور کمزور ٹریفک وارڈن نے چیختے چلاتے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی اور آج یہ ٹریفک وارڈن اسی روایتی پولیس کا حصہ ہے اور قوم بھی اس نئی پولیس کو پرانی پولیس سمجھ کے خاموش ہو بیٹھی ہے۔ اسی طرح عمران خان صاحب سے بھی اس بھولی قوم نے اتنی امیدیں باندھ لی ہیں کہ اب عمران خان صاحب خود سوچ میں پڑے ہیں کہ جو امیدیں وہ اس قوم کو دلا چکے ہیں ان امیدوں اور توقعات کا یہ بھاری بوجھ کس طرح کم کر سکیں گے اور خان صاحب کے گرد مفادات کا وہ سیاسی ٹولہ ہے جو بغیر وجہ کسی سے سلام لینے کو تیار نہیں ہوتا تو وہ عمران خان صاحب کو کس طرح غریبوں کی امیدوں پہ پورا اترنے دے گا؟
وہ مفاد پرست گروہ کیسے قانون کی بالادستی کو مانے گا؟

ٹریفک وارڈن پالیسی میکر نہیں تھا۔ عمران خان پالیسی میکر ہے اب خان صاحب چاہیں تو روایتی سیاستدانوں میں ڈھل کر خاموش تماشائی بن جائیں یا چاہیں تو تبدیلی کرنے کے لئے تنقید برداشت کرتے رہیں۔ ویسے تنقید یا تو دلبرداشتہ کر دیتی ہے یا پھر چٹان کی مانند مضبوط کر دیتی ہے۔ خان صاحب جب آپ اس گروہ کے غیر قانونی کاموں کو تحفظ دینے سے انکار کریں گے تو ان کی طرف سے تنقید آپ کا مقدر ٹھہرے گی۔

ویسے چوک کے درمیان کھڑا ٹریفک وارڈن یا صوبوں کے مرکز میں بیٹھا عمران خان آپ کے لئے صرف راہ متعین کر سکتے ہیں، درست سمتوں کی نشاندھی کر سکتے ہیں مگر اس سفر کو محفوظ آپ نے اپنے فرائض نبھا کر خود بنانا ہے۔ اگر ہم پاکستان کو واقعی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو سب کو اپنا کردار نبھانا ہوگا ورنہ پھر کہیں نہ پھر دیر ہو جائے۔
ٹریفک وارڈن آج تک اس قوم کو یقین دلانے میں ناکام رہا ہے کہ لال بتی پہ ایک منٹ کی رکاوٹ بعد میں صاف اور کھلی سڑک مہیا کرتی ہے جبکہ عمران خان کی نا کامی یا کامیابی کا تعین ابھی وقت نے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).