الفاظ کا انتخاب اور تعبیر کا اسلوب آپ کی شخصیت کے آئنے ہیں


الفاظ کا انتخاب اور تعبیر کا اسلوب method of expression دو دھاری تلوار ہیں. اس میں آپ کی زرا سی بے توجہی مفید کو غیر مفید بنا دے گی، productive کو counter productive بنا دے گی۔ آپ کا نفع پہنچانے کا مقصد کو نقصان پہنچانے والے بنا دے گی۔ اس لیے ہمیں زبان و قلم کے استعمال کے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے. کمان سے تیر نکل جانے کے بعد اسے لوٹایا نہیں جا سکتا، لیکن انسانوں کے پاس اللہ رب العزت نے مواقع فراہم کیا ہے کہ غلطیوں کی نشان دہی ہو جائے تو اس کی تصحیح کی جائے۔ اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور اپنی بات اور خیالات کو ہر حال میں حق ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی جائز نا جائز تاویل کرنے اور جواز پیش کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اس طرح کا رویہ اپنا کر تصادم اور انتشار سے ہم بچ سکتے ہیں۔ ہر شخص میری رائے سے متفق ہو یہ ضروری نہیں ہے اسی طرح میں بھی کسی کی رائے کا مخالف ہو سکتا ہوں اور یہ صحت مند معاشرہ کے افراد کی پہچان ہے: احترام الرأي والرأي الآخر؛ لیکن اس ضمن میں جو شئے سب سے زیادہ قبیح ہے، وہ ہے اپنی رائے کے خلاف نہ نہیں سننے کی صلاحیت اور قوت برداشت کی کمی جس سے مغلوب ہو کر مد مقابل کے لیے رکیک الفاظ کا استعمال، ذاتیات پر حملہ، نفس موضوع کو چھوڑ کر اس کی ماضی کی خامیوں یا فیملی بیک گراؤنڈ پر گفتگو یا سیاق و سباق کو چھپا کر اس کو گھیرنے کی کوشش یا غیر پارلیمانی غیر شایستہ غیر شریفانہ زبان کا استعمال۔

اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کا مخاطب جھوٹ بول رہا ہے تو پارلیمانی زبان میں اسے جھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ اسے اس طرح کہنا ہوگا: ’آپ کی بات میں صداقت نہیں ہے؛ آپ کا بیان میں سچائی سے خالی ہے‘۔ ظاہر ہے اس ٹون میں بات کرنے سے متکلم اور مخاطب دونوں طیش سے خالی ہو جاتے ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ جن لوگوں کو تحمل اور رواداری کا نمایندہ سمجھا جاتا ہے، وہی لوگ زیادہ آپے سے باہر اور نہ صرف سوقیانہ زبان بلکہ گالی گلوچ کا استعمال کرنے لگے ہیں، اور پھر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ ان لوگوں نے روایتی انداز میں محض تعلیم یعنی لکھنا پڑھنا سیکھا ہے، تربیت ان کے پاس سے بھی نہیں گزری ہے۔

اگر دل میں اچھا جذبہ ہو فکر نیک نیتی پر مبنی ہو تو اس کے ذہن میں یہ ضرور رہنا چاہیے، کہ اچها انسان ماں کی گود سے گور تک سیکھتا رہتا ہے۔ کبھی کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتا اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ پرفیکٹ کوئی نہیں ہے اور ہر شئے کا مکمل علم کسی کو نہیں ہے، اور غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں۔ اسی لیے جس عبارت سے غلط فہمی اور انتشار کا خدشہ ہو، اس جگہ بین القوسين brackets میں وضاحت کر دے؛ حفظ ما تقدم کے طور پر۔ اس pre emotive measure سے صاحب تحریر خود بھی محفوظ رہتا ہے اور قارئین کو بھی انتشار سے بچاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).