انتہاپسندی


ایک دو دن سے سوشل میڈیا پہ کئی ویڈیوز گردش میں ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ کیسے انتہاپسندی کا شکار ہے اور ہرکوئی اپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فرعون بنا بیٹھا ہے۔

*غنڈوں نے ایک فارسٹ گارڈ کو گھیر رکھا ہے اور بے پناہ تشدد کرتے نظرارہے ہیں بلکہ انھیں ننگا کرکے مارا پیٹا جارہا ہے اور وہ بیچارہ ان کےنام لے لے کر جان خلاصی کیلئے منتیں کررہا ہے۔

*ایک نوجوان کو و ڈیرے کے ڈیرے پہ لایا گیا ہے اور انھیں ننگا کرکے بےتحاشہ مارا جارہا ہے اور وہ مظلوم بےبسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔

*ایک نوجوان لڑکی کو بھرے بازار میں گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا جارہا ہے اور وہ چیخ چیخ کر بتلا رہی ہے کہ اسے دارالامان کا ایک زمہ دار ساری ساری رات نوچتا رہتاہے اس لئے موقع پاکر وہ بھاگ نکل آئی ہے۔ حوا کی بیٹی یوں لٹتی رہتی ہے اور بےبسی کی تصویر بن کر سرعام لوگوں سے مدد مانگ رہی ہے مگر سماج بھی ظالم، آفیسر بھی فرعون اور لوگ بھی بے حسی کی تصویر۔

*ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور میں ایڈمن آفیسر ایک طالب علم کو عین طلبہ کے سامنے اسلحہ تان کر ہال سے اٹھاتا ہے اور ان پہ تشدد کیا جارہاہے اور دیگر کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

*وفاقی وزیر شیخ رشید کیمروں کے سامنے ایک بوڑھی خاتون کو دھکا دیتا ہے اور ویڈیو بنانے والے صحافی سے موبائل چھین کر دیوار پہ دے مارتا ہے اور الٹا بعد میں اس کا اعتراف کرکے ڈٹ بھی جاتا ہے۔

*پولیس سرعام ایک شہری کو ماررہی ہے اور اخر میں گاڑی میں ڈال کر تھانہ لے جارہی ہے۔

*ایک فوجی آفیسر بھرے بازار میں ٹریفک پولیس سے الجھ جاتا ہے،انھیں ننگی گالیاں دیتا ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دیتا ہے۔

*ایک فوجی جوان ریلوے سٹیشن میں کھلے عام ایک نوجون پہ ٹوٹ پڑتاہے، ان پہ تھپڑوں کی بارش برساتا ہے اور نوجوان چھڑوانے والے ایک پولیس بیچارے کو بھی تھپڑ رسید کردیتا ہے۔

*پنجاب کا وزیر اطلاعات ان کیمرہ اینکر پرسن اور ٹی وی عملے کو ننگی گالیاں نکالتا ہے۔

*حکمران پارٹی کا ممبر صوبائی سندھ اسمبلی اوور ٹیکنگ کی گستاخی کرنے پر ایک معزز شہری کو مار رہاہے اور گالیاں بھی بکتا ہے۔

*خاتون اوّل کا سابق شوہر خاور مانیکا گاڑی رکوانے پر پولیس والوں کے ساتھ الجھ جاتا ہے اور حکم کی تعمیل نہ کرنے پر ڈی پی او کو معافی مانگنے کیلئے دربار پہ حاضری کیلئے کہا جاتا ہے مگر حکم عدولی پر ان کی بےعزتی کروا کر ان کا تبادلہ کروایا جاتا ہے۔

*ایک مذہبی جماعت کا پروگرام ہے جس میں دوسری مسلک کے حاملین آکر دنگا فساد شروع کرلیتے ہیں اور دونوں جانب سے اسلحہ لہرا کر لوگ ایک دوسرے پہ چڑھ دوڑتے جاتے ہیں اور انتہائی بے ہودا اور نازیبا زبان استعمال کیاجارہا ہے۔ آئے روز میڈیا پہ آتا ہے کہ ان پڑھ اور جاہل ہی کیا اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور لبرل لوگ بھی درندگی پہ اتراتے ہیں اورانسانیت کے ماتھے پر کالک ملتے ہوئے اپنے ہی گھر کی چھوٹی چھوٹی نوکرانیوں تک کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔

“مشت نمونہ از خروارے” کے مصداق یہ تو چند نمونے اور جھلکیاں ہیں وگرنہ ایسی واقعات کی ایک دنیا ہے جو بڑی تاریک اور بدتہذیب ہے۔ بےشمار ایسے واقعات ہیں جو میڈیا کی زینت نہیں بنتے۔ لگ ایسا رہا ہےکہ ہمارا پورا معاشرہ درحقیقت کمپلیکس کا شکار ہے یعنی کہی احساس کمتری پائی جاتی ہے اور اس خلا کو پر کرانے کی چکر میں بدتہذیبی کا لبادہ اڑھ لیاجاتاہے اور خود نمائی کیلئے غلیظ ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔اسی طرح کہی احساس برتری کا زعم ہے اور اپنی حثیت اور مقام کو منوانے کیلئے انسانیت سے نکل جانے میں بھی عار محسوس نہیں کیا جارہا۔ غرور، تکبر،رعونت، فرعونیت اور دوسروں کی تحقیر، تضحیک اور مذاق اڑنا اس کے عام مظاہر ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی سماجی و معاشی ناہمواریاں، لاقانونیت، جہالت، تعصب ،میڈیا کا منفی کردار، ناقص نظام تعلیم اور مذہبی عدم رواداری اور لبرل انتہاپسندی اس کلچر کے بڑے اسباب تو ہیں مگر سیاسی فسطائیت بھی کچھ کم وجہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی محل نظر نہیں ہے کہ کسی بھی کلچر کو پروان چڑھانے میں حکمران طبقے کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ جہاں جہاں میکاولی طرز سیاست ہو وہاں ایسی ہی میکاولی مزاج پروان چڑھے گا۔ یعنی اپنی بالادستی کو ہر صورت برقرار رکھنا، نمایاں کرنا اور ہرہرطریقے سے دوسروں سے منوانا۔ ایسی مزاجوں کے یہی رویے ہوتے ہیں جس کا ہم آئے روز مشاہدہ کررہے ہیں۔ اخلاقیات کی ترویج تو ہماری حکومتوں، بالادست طبقات اور میڈیا کا ایشو ہے ہی نہیں مگر مذہبی طبقے نے بھی اپنی اس اہم ذمہ داری کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور درحقیقت اعلی انسانی اخلاق کا ایک جامع مجموعہ، مگر بدقسمتی سے ہم اس سے اپنے معاشرے کو روشناس نہیں کر پائے۔ مسلکی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بالادستی کے لئے جتن تو ہے مگر اسلام کے زرین اصولوں، تعلیمات ، ھدایات اور آداب سے انسانیت کو منو رکرانے کی زرا برابر کوئی سوز، درد اور تڑپ ہے ہی نہیں ۔صبر، برداشت، رواداری ،میانہ روی، عفو و درگزر، نرمی، ہمدردی، احترام، انصاف، عدل اورباہمی محبت وہ خوبیاں ہیں جس سے معاشرے تشکیل بھی پاتی ہیں اور اس کے حسن میں نکھار بھی آتا ہے۔ اسی طرح غرور، تکبر، غصہ، عدم برداشت، ظلم، حق تلفی اور نفسانفسی وہ بیماریاں ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہیں اور فی الحقیقت انتہا پسندی سے دوچار کرلیتی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ علماء، واعظین،اساتذہ، دانشور اور میڈیا معاشرے کی اصلاح پہ توجہ دے اور وہ برائیاں جو معاشرے کی خرابی کا باعث بن رہی ہیں اس کی نشاندہی کریں اور ان صفات اور خوبیوں کو اجاگر کریں جن سے انسانوں کے سیرت وکردار کی تعمیر اور معاشرے کی تشکیل اور نکھار میں بنیادی مدد ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).