کیا آپ رومی اور شمس کے عشق کے بارے میں جانتے ہیں؟



مولانا رومی اور شمس تبریز کی دوستی‘ ان کی محبت اور ان کا عشق سات سو برس کے بعد بھی پراسراریت کی دھند میں کھویا ہوا ہے۔مختلف محققین اس رشتے کی حقیقت اور معنویت کے بارے میں متفق نہیں ہیں۔ بعض کا خیال ہے وہ عشق روحانی تھا‘ بعض کا گمان ہے وہ رومانوی تھا‘ بعض کو یقین ہے وہ جذباتی تھا اور بعض کا خیال کہ ایسے عشق کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ انسانی اور روحانی عشق کی اس معراج پر تھا جہاں فنا اور بقا آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔
میرا ایک شعر ہے
ایک چاہت جو عارضی سی لگے
اس کی تاثیر جاودانی ہے
اس چاہت کی تاثیر یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ساری دنیا کے سنت‘ سادھو اور صوفی اس تیرھویں صدی کے عشق کے پھلوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ ان تمام تر خوشیوں اور شادمانیوں کے باوجود ان کے من میں ایک کمی تھی ۔دل میں ایک خلش تھی۔ذہن میں ایک کسک تھی۔ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملنا چاہتے تھے جو ان کی ذات کے نہاں خانوں میں دبی عشق کی چنگاری کو بس ایک نگاہ سے شعلہ بنا دے۔ بقول اقبال

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اور پھر ان کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی جس کا نام شمس تبریز تھا۔ اس درویش نے رومی کی پرسکون زندگی میں ایک ہلچل‘ ایک اضطراب اور ایک طوفان برپا کر دیا۔ رومی کی زندگی کے پرسکون تالاب میں شمس نے ایک ایسا کنکر پھینکا جس کی لہریں وقت کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیل گئیں۔ رومی اس درویش سے اتنا متاثر ہوئے کہ وہ اسے اپنے گھر لے آئے اور شب و روز اس کی قربت اور صحبت میں گزارنے لگے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ علمی و روحانی مکالمے میں اتنے محو رہتے کہ انہیں نہ کھانے کی فکر ہوتی نہ سونے کی۔ رومی نے جب اپنے خاندان اور اپنے شاگردوں کو نطر انداز کرنا شروع کیا تو وہ شمس سے پہلے رشک پھر حسد کرنے لگے۔شمس کو جب اس حسد کا اندازہ ہوا تو وہ ایک دن پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے۔

پہلے تو رومی کی بیوی بچے اور شاگرد بہت خوش ہوئے کہ ان کا رقیب چلا گیا ہے لیکن جب انہوں نے رومی کو داغ مفارقت کی وجہ سے بہت دکھی‘ غمزدہ‘ دن رات آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ رومی نے اپنے بڑے بیٹے سلطان ولد سے کہا کہ وہ شمس کو تلاش کرے اور واپس لے کر آئے۔ سلطان ولد سارا شہر اور سارا ملک تلاش کرتے رہے لیکن شمس نہ ملے ۔ آخر انہیں پتہ چلا کہ شمس ترکی سے شام جا چکے ہیں۔ انہوں نے شام جا کر شمس کی منت سماجت کی تو وہ لوٹ آئے۔ رومی اور شمس کا نہ ختم ہونے والا مکالمہ پھر شروع ہوا اور حالات بد سے بدتر ہونے لگے۔ شمس نے دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔ لیکن اس شادی نے حالات مزید گھمبیر کر دیے کیونکہ اس منہ بولی بیٹی سے ان کا چھوٹا بیٹا علاؤ الدین عشق کرتا تھا اور شادی کرنا چاہتا تھا۔ اب علاؤ الدین شمس سے حسد کرنے لگا۔ نفسیاتی طور پر یہ حقیقت اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔

شمس سے عشق کے بعد رومی کی خاندانی اور سماجی زندگی میں اتنے مسائل پیدا ہوئے کہ آخر ایک دن شمس گھر کے پچھلے دروازے سے باہر گئے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ علاؤ الدین نے حسد کی آگ میں جل کر شمس کو قتل کروا دیا۔
شمس کی پرسرار گمشدگی کے بعد رومی بہت دکھی ہوئے اور ایک طویل عرصے تک دیوانوں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں انہیں تلاش کرتے رہے۔ آخر ایک دن انہیں احساس ہوا کہ شمس مرے نہیں ان کے اندر زندہ ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے شاعری شروع کی اور اپنے پہلے دیوان کا نام بھی دیوانِ شمس تبریز رکھا۔ اس کے بعد شاعری کا سلسلہ دراز ہو گیا اور انہوں نے مثنوی مولائے روم کے ہزاروں اشعار تخلیق کیے جو عارفانہ شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
شمس نے پیشین گوئی کی تھی کہ رومی کے اندر ایک شاعر چھپا ہے۔ دیوانِ شمس تبریز اور مثنوی رومی نے اس پیشین گوئی کو صحیح ثابت کیا۔ اسی لیے رومی فرماتے ہیں
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمسِ تبریزے نہ شد
شمس تبریز نے رومی کو اس پل سے متعارف کروایا جس سے گزر کر شریعت کے پرستار طریقت کی منازل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

مزار شمس تبریز

مولانا رومی کی وفات کے سات سو سال بعد بھی ان کا کلام مشرق و مغرب میں مقبول ہو رہا ہے۔ UNESCO نے 2007 میں مولانا رومی کی بین الاقوامی سطح پر 800 ویں سالگرہ منائی۔
رومی کے سات اقوال کا ترجمہ حاضر ہے
1۔ تمہیں محبت کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں ان دیواروں کو گرانے کی ضرورت ہے جو تم نے اپنے اور محبت کے درمیان کھڑی کر رکھی ہیں
2، تم جس کی تلاش میں ہو وہ بھی تمہاری تلاش میں ہے
3۔ کل میں زیرک تھا ساری دنیا کو بدلنا چاہتا تھا ۔ آج میں دانا ہوں خود کو بدلنا چاہتا ہوں۔
4۔ جدائی ان کے لیے ہے جو آنکھوں سے پیار کرتے ہیں۔ دل سے محبت کرنے والوں کے لیے جدائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
5۔زخم وہ کھڑکی ہےجس سے روشنی داخل ہوتی ہے۔
6۔ دل کے دروازے پر اس وقت تک چوٹیں کھاتے رہو جب تک وہ کھل نہ جائے۔
7۔ دل ایک سمندر ہے۔ اس کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو تلاش کرو۔

رومی کی زندگی اور ان کی شمس سے عشق کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں جو کتابیں چھپی ہیں ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں

1.THE FORTY RULES OF LOVE : NOVEL OF RUMI BY ELIF SHAFAK
2.ME AND SHAMS: AUTOBIOGRAPHY OF SHAMS TRANSLATED BY WILLIAM CHITTICK

3.RUMI: PAST AND PRESENT, EAST AND WEST BY FRANKLIN LEWIS
4. DIVAN E SHAMS TABREZ TRANSALATED BY
RA NICHOLSON

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail