تحریک انصاف کی حکومت، یہودی سازشیں اور شراب کی بوتل


ہم بھی وہی دل بھی وہی مگر دھڑکنیں ہیں نئی نئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی فلاحی ریاست کے خلاف یہودیوں کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں کیونکہ یہودی ایجنٹس نہیں چاہ رہے ہیں کہ ملک خداداد میں امیر المومنین رات کے وقت بھیس بدل کر اپنی رعایا کا حال چال پوچھنے کو نکلے۔ اس لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی عہدیداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا ملک کے فنکاروں کے خلاف نا زیبا الفاظ کا استعمال ہو یا پھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ہیلی کاپٹر کے کرائے کے حوالے سے بیان ہو یا پھر میڈیا کی سینسرشپ کی بات ہو یا پھر ڈی پی او پاک پتن کی تبدیلی اور مانیکا فیملی کی پاک پتن میں حکمرانی قائم کرنے کی بات ہو، یہ سب پاکستان تحریک انصاف کو بدنام کرنے کی یہودی سازشوں کی ایک کڑی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف تو دن رات کابینہ کے خصوصی اجلاسوں میں مصروف ہے تاکہ جلد سے جلد اسلامی فلاحی ریاست بنائی جا سکے اور دوسری طرف میڈیا سمیت پاکستان تحریک انصاف کے مخالف حکومت کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں شامل تمام لوگ جو ماضی میں مختلف سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ان کو بھی بدنام کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں کہ وہ نیب زدہ ہیں اور جلد ہی ان کے خلاف نیب ریفرنس بنائے گی۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے چیئرمین نیب سے ملاقات میں ان کو یہ واضح احکامات جاری کر دیے تھے کہ نیب ریفرنس بنانے سے پہلے کسی کی بھی کردار کشی نہ کی جائے۔

ارض پاک پر تبدیلی کی نئی کرن تو نمودار ہو چکی ہے ہر طرف تبدیلی ہی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ چاروں اطراف خوشگوار ماحول میں میل جول اور دلی راحت کا شاندار سماں نظر آ رہا ہے سب کا ایک نقطہ نظر ہے اور ایک ہی کتاب پڑ ھ رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں کڑے احتساب کی تیاریاں شروع کر دی ہیں تاکہ ملک کی لوٹی ہوئی قومی دولت کو ملک میں واپس لایا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے۔ میاں نواز شریف تو پہلے ہی جیل میں ہیں اور آصف علی زرداری بھی منی لاڈرنگ کیس میں بہت جلد جیل جاتے نظر آ رہے ہیں۔ تاہم لوگ پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں سیف الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک والے احتساب سے ڈرے ہوئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان تحریک انصاف بھی ان ماضی کی دونوں حکومتوں کی طرح اپنے ہی بنائے ہوئے احتساب میں خود کشی کرتے نظر آئے۔

پاکستاں تحریک انصاف کی یہ خوش قسمتی کہی جائے یا پھر کوہ قاف کے جنوں کی طرف سے مدد کہی جائے کہ اپوزیشن اکٹھی ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو تقسیم کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو اندرونی اور بیرونی مشکلات کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور سماجی انقلاب لانے کے لیے کام کرنا ہے۔ اور لوگ تو ان کا ہنی مون ختم ہونے سے پہلے ہی تبدیل ہوا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ہنگامی طور پر ملکی ترقی اور کڑے احتساب کے لیے ٹاسک فورس بنا دی ہیں مگر لوگوں ان ٹاسک فورسز کو یہ کہہ کر رد کر رہے ہیں کہ یہ ٹاسک فورس تو ماضی کی حکومتوں نے بھی بنائیں اور یہ ہی لوگ ان ماضی کی ٹاسک فورس کا حصہ تھے مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوا تو دوبارہ وہی لوگ وہی ٹاسک فورس کیا انقلاب لائیں گی؟

پاکستان تحریک انصاف کے متوالے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر ہر تنقید کا جواز اور جواب بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیے جا رہے ہیں مگر لوگ ابھی تک یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ 300 روپے سے کم میں تو بنی گالا سے ٹیکسی بھی وزیر اعظم ہاؤس نہیں آتی تو ہم کیسے تسلیم کر لیں کہ خان صاحب کے ہیلی کاپٹر کا خرچہ صرف 250 روپے ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کو کون سمجھائے کہ سادگی اور سچائی کی مثالیں بس میں سوار ہو کر تصویر کھنچوانے سے نہیں دے جاتیں کیونکہ آپ سے پہلے یہ کام وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کراچی کے چھپڑ ہوٹلوں میں چائے پی کر تصویریں کھینچوا کر کر چکے ہیں مگر ابھی بھی عوام ان کی لمبی گاڑیوں کی دھول چاٹتی نظر آتی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار صاحب کو کون سمجھائے کہ آپ کی حکومت تو سادگی اپنانے اور وی آئی پی پروٹوکول کے خلاف ہے مگر آپ سرکاری جہاز سے اترتے ہی نہیں۔ وزیر اعظم عمران صاحب کی سادگی اور سچائی پر تو کسی کو کوئی شک نہیں ہے مگر ان کی ٹیم میں شامل وزراء، مشیر، ایم این ایز اور ایم پی ایز نے تو آنکھ ہی اس جاگیردارانہ نظام میں کھولی ہے بھلا وہ کیسے شاہانہ پروٹوکول اور عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ دیں جو ماضی میں وہ خود اور دوسری لوگ گزارتے رہے ہیں۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ جس انسان نے جس طرح کےماحول میں آنکھ کھولی ہوتی ہے اس پر اسی ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور ماحول کا اثر مشکل سے ہی ختم ہوتا ہے۔

اس ملک خدادا میں یہ دستور پرانا ہے کہ ہر حکومت میں سازشی نظریہ اور یھودی لابیز، کرپشن اور احتساب کا گردشی چرچا چلتا ہی رہتا ہے۔ اس ملک میں ہمیشہ کی طرح ایم پی اے عمران شاہ جیسے لوگ راستے پر عام شہریوں کو ایسے ہی تھپڑ مارتے رہے ہیں اور علی امین گنڈا پور اور شرجیل میمن کی شراب کی بوتلوں سے شہد ہی برآمد ہوگا۔ ہماری معاشرے کا عجیب ہی دستور ہے کہ خود شراب پینے والے شرجیل میمن کی شراب کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دے کر اسے پھانسی پر چڑھا دینے کی سفارش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب قول و فعل میں تضاد ہو تو پھر معاشروں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).