آزادی اظہار کے لئے دوطرفہ احترام ضروری ہے


زندگی پر سکون انداز میں رواں دواں تھی. شخص اپنی دُھن میں مگن تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ گھریلو زندگی جنت کا منظر پیش کرتی تھی اور گھر کے باہر دوستانہ رویے معاشرے کو زینت بخشتے تھے۔ کہیں جھگڑے کی بازگشت بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ بچے اس خوبصورت ماحول میں پرورش پاتے جو کہ بڑے ہو کر اسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے جیسے والدین کو دیکھتے۔ ایسا نہیں تھا کہ کوئی شخص کسی پر تنقید نہ کرتا ہو۔ تنقیدتو معاشرے کی خوبصورتی ہے۔ اسی کے ذریعے تو قومیں سنورتی ہیں۔ لیکن اس وقت برداشت کا پہلو نمایاں تھا۔ کسی کی بات سن کر بھڑک جانا اور اپنے علاوہ تمام افراد کو غلط سمجھنا اس زمانے کے لوگوں کا شیوہ نہیں تھا۔
مگر پھر وقت بدل گیا ، وقت گزرنے کے ساتھ حالات میں بہتری تو کیا آتی تعلقات میں تناؤ بڑھنے لگا۔جیسے جیسے ذرائع ابلاغ عامہ بہتر سے بہترین ہوتے گئے ویسے ہی لوگوں نے اس سے مستفید ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنا شروع کر دیا۔ ہمیں زیادہ سروکار اس سے رہنے لگا کہ دوسرا شخص دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عدم برداشت کا سلسلہ بھی اپنے عروج کو پہنچنے لگا۔
دورِ جدیج کے سب سے مشہور سوشل میڈیا کی بات کرتے ہیں تو چاہے ٹوئیٹر ہو جس پر کی گئی کافی باتیں درست اور مہذب تصور کی جاتی ہیں یا پھر فیسبک جہاں ہر انسان اپنی مرضی و منشا کی مطابق ہر طرح کی خبر بغیر تصدیق کے دینے سے گریز نہیں کرتا، ونوں ہی پر کی جانے والی بیشتر باتیں تنقید پر مبنی ہوتی ہیں۔ بالخصوص پاکستانی میڈیا اور ہماری سیاست میں جہاں تنقید کا عنصر نمایاں ہے وہیں صحافت میں بھی لوگ نکتہ چینی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہماری عوام اس بات کو اپنا شیوہ بنا چکی ہے کہ کوئی بھی بات جس پر ان کا اختلافِ رائے ہو اس پر واویلا ضرور کرنا ہے۔ کسی موضوع پر اپنی رائے دینا الگ بات لیکن اس بات کے پیچھے اس طرح سے پڑ جانا کہ مخالف کو اپنی بات کا موقع ہی نہ دیا جائے کسی مہذب معاشرے کا عکاس نہیں۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی نا اہلی کا معاملہ ہو یا موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت بنانے کا عمل ہر جگہ صرف تنقید اور نکتہ چینی ہی نظر آئے گی۔ آج کل سلیم صافی صاحب کا بیان لوگوں کے عتاب کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ہر خواص و عام یہاں تک کہ صحافی برادری کے چند نمایاں نام بھی اس کارِ خیر میں پیش پیش ہیں۔ بلکہ تنقید برائے تذلیل کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے خواہاں معلوم ہوتے ہیں۔
یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں ایک اپنی رائے کا اظہار کرنا اور دوسرا تنقید کرنا۔ ایک میڈیا کی طالبہ ہونے کے ناطے جب مختلف مسائل اور مختلف چینیلز اور سوشل میڈیا پر ان کے حل پر بحث سنتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم آزادی رائے سے کچھ آگے نکل گئے ہیں۔ اور اس حصے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں تنقید برائے تنقید اور تنقید برائے تذلیل کا راج ہے۔ تنقید برائے اصلاح کا تو نام و نشان بھی موجود نہیں۔ محض مخالف کو نیچا دکھانا، اس کے کئے گئے ہر اقدام کو نشانہ بنانا اور اس کا منفی پہلو پیش کرنا ہرشخص کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ جس کے ردِ عمل میں بھی عدم برداشت کا مظاہرہ ہی کیا جاتا ہے، جواباً کاری وار ہی کیا جاتا ہے۔
حوصلہ اور صبر جو انسان کی پہچان ہوا کرتے تھے اب چراغ لے کر بھی ڈھونڈے تو شاید نہ ملیں۔ اظہارِ رائے اور تنقید ایک معاشرے کا حسن ہیں۔ کسی معاملے میں اپنی بات کا اظہار کرنا باشعور انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ اصلاح کے لئے کی گئی تنقید سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ لوگوں کو اپنی درستگی کا موقع ملتا ہے۔ مگر جہاں تنقیدبغیر کسی وجہ کے کی جائے وہاں کے افراد میں برداشت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور ہر بندہ اپنی تصحیح کی بجائے دوسروں پر باتیں بنانے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اپنے اس عمل پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے و رنہ ڈر ہے کہیں ہم انسان اپنی شناخت کھو کر انسانیت کے کے اعلی مقام کو اپنے ہاتھوں گنوا نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).