مولانا فضل الرحمان اور صدارتی انتخاب



مولانا فضل الرحمان آج کل راتیں گن گن کے گزار رہے ہیں۔ ان کے ساتھ راجہ پرویز اشرف بھی۔ ان کا خیال ہے کہ ایک دو راتوں میں مسئلہ حل ہو جاے گا۔ پی پی کی بی ٹیم کے پاس اتنی ہی اجازت ہوتی ہے کہ مذاکرات کو طول دیا جا سکے۔ حتمی فیصلہ کرنے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ پی پی کی اصل طاقت آصف زرداری کے پاس ہے۔ اگرچہ مولانا زرداری سے دوستی کا دعوی کرتے ہیں مگر زرداری اپنے ذاتی مفاد کے سامنے دوستی کو اہمیت نہیں دیتے۔ ویسے بھی ان کی سیاست ان کے غیر ملکی اثاثوں کے گرد گھومتی ہے۔ آج کل یہ اثاثے نظروں کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ بقول شخصے ان کے مال کو نظر بلکہ نظر بد لگ گئی ہے۔ اس لئے نوازشریف کا مولانا کو صدارتی امیدوار بنانے کا کوئ فائدہ نظر نہیں آرہا۔ جبکہ عارف علوی راتیں گننے کی بجائے دن گن رہا ہے۔ اسے خواب میں بھی اکیس توپوں کی سلامی ملتی دکھائ دے رہی ہے۔

پاکستان کے گزشتہ ادوار کے صدور پر نظر دوڑائ جاے تو کوئ بھی الیکٹڈ صدر طاقت کے اعتبار سے صاحب ثروت نھیں نظر آتا۔ زیادہ تر ممنون حسین اور رفیق تارڑ جیسے مرنجاں مرنج احباب ہی نظر آتے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں البتہ ایسے صدور آئےجو بڑے طاقتور تھے۔ اسحاق خان اگرچہ عمر کے اس حصے میں تھے جہاں بندہ اگلے جہان کی سوچتا ہے مگر اس نے دو بار اسمبلی توڑی۔ فاروق لغاری پی پی کا خاص آدمی تھا مگر اس نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت توڑ ڈالی۔ وردی والوں کی اور بات تھی وہ تو دور سے صدر بلکہ شہنشاہ لگتے تھے۔ مجال ہے کوئی ذرا بھی اختلاف کرنے کی جرات کرے۔ ان کے انتخاب کا طریقہ بھی وہ خود ہی وضع کرتے تھے۔ اور اس انتخاب کو جسے وہ ریفرینڈم کہتے تھےُ کے نتیجے کا انہیں پہلے ہی سے علم ہوتا تھا۔ یوں موجودہ دور میں میں بھی کچھ لوگوں کو انتخابی نتائج کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے مگر انتخاب لڑنے والوں کو اپنے حامیوں کی طرف سے تسلی ہوتی ہے ۔ یہی تسلی دراصل ان کو مروا دیتی ہے۔ نواز شریف اور مولانا کے ساتھ بھی یھی کچھ ہوا ہے۔ دونوں اپنے ووٹروں اور حامیوں پر زیادہ بھروسہ کر بیٹھے۔ نواز شریف تو جیل کی ہوا کھا رھے ہیں۔ مولانا کو البتہ جیل بھیجنے کا کوئ انتظام نہیں کیا گیا۔

جس طرح عام سیاستدانوں کی زندگی اتار چڑھاو کا شکار رہتی ہے مولانا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں۔ ان کی زندگی میں اتار کبھی نھیں آیا۔ ایم ایم اے جب پہلی بار بنی بلکہ بنائ گئی تو مولانا بھی صاحب اقتدار ہوئے۔ پرویز مشرف نے مولانا کو امریکہ کے مقابلے میں آہنی چٹان بنا کے کھڑا کردیا۔ مولانا کا فوٹو دکھا دکھا کر امریکہ سے ڈالر ٹھگتے رہے۔ زرداری نے آپ کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنا دیا جس کا درجہ وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ نواز شریف کو بھی آپ سے یہ عہدہ واپس لینے کی جرات نہ ہوئی۔ نواز شریف زیر عتاب آئے تو آپ نے پھر ایم ایم اے بنا ڈالی۔ مگر اس بار وہ تھے اور ان کے ووٹر۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ مولانا کو دو دھائیوں بعد وزارتی محل چھوڑنا پڑا جس کا انہیں رنج ہے۔ پوری قوم سوائے قوم یوتھ کے مولانا کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ اسی لئے نواز شریف نے انھیں عزت دینے بلکہ ان کی عزت بحال کرنے کی خاطر انھیں صدارتی امیدوار بنایا۔ بدقسمتی سے آج کل میاں صاحب جسے عزت دینے کی زرا سی بھی کوشش کریں اس کے حالات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی نے جیل کی ایک خاتون افسر کی زرا سی تعریف ہی تو کی تھی کہ وہ بھی زیر عتاب آ گئی۔ سلیم صافی کا حشر بھی دیکھ لیں میاں صاحب کی زرا سی تعریف اسے کتنی مہنگی پڑی اگرچہ اس نے بھی ڈٹ جانے میں عافیت جانی۔ فضل الرحمان کے حوصلے کی داد دینی چاہئے کہ وہ ان حالات میں نواز شریف کے نامزد امیدوار ہیں بلکہ آصف زرداری سے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں۔

 عمران کے حامیوں اور خود عمران خان نے جلسوں میں مولانا کے خلاف غیر سیاسی نعرے بازی کرائی۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایسی غلیظ مہم چلائی گئی کہ الامان۔ ان تمام حالات کے باوجود مولانا اپنے آپ کو پوری طرح صدارتی امیدوار سمجھ رہے ہیں اور پوریے زور و شور سے الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ مخالفین ابھی تک انھیں مولانا سمجھ رہے ہیں حالانکہ وہ ایک سیاستدان ہیں بلکہ منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).