حسینان عالم ہوئے شرمگیں



اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون عملاً اور سرعام رائج تھا۔ جو جتنا بڑا مجرم اتنا بڑا معزز تھا۔ بظاہر دین ابراہیم کے پیرو کہلانے والے عملاً دین حنیف سے کوسوں کیا ہزاروں کوسوں کی دوری پر تھے۔ اپنی پگڑی اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کر جاتے اور پھر تکبر کرتے اور فخر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ معاشرہ، ذلت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں لڑھک کر گندگی اور عفونت کا عجیب و غریب مرکب بن چکا تھا۔ کہیں کسی دل میں سعادت کی ہلکی پھلکی روشن شمع بھی پریشان تھی۔ اس کے لیے کسی دوسرے کی راہنمائی کرنا اور تاریکی دور کرنا تو دور کی بات اپنی سمت قائم رکھنا ہی محال تھا۔ عام طو رپر اس دور کو دور جہالیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شاید یہی ایک لفظ اس پورے تعفن زدہ معاشرے کی کچھ عکاسی کر سکتا ہے۔

ایسے پر آشوب دور میں میرے آقا و مولا سید ولد آدم حضرت محمد ﷺ کا ظہور ہوا۔ آپ کی ذات، صفات، کمالات، کرامات، دعاؤں اور تاثیر نے دنیا بدل کے رکھ دی۔ آپ کی قوت قدسی کا اثر صرف آپ کے ماننے والوں پر نہیں پڑا بلکہ پورے معاشرے پر ہوا۔ رہتی دنیا تک یہ جاری چشمہ فیض متلاشیان حق کی سیرابی کے لیے کافی و شافی ہے۔ آپ کو حقیقی معنوں میں ماننے والے تو ستارے بن گئے اور منارہ روشنی ہوئے۔ قوموں نے ان سے روشنی پائی اور وہ اقوام عالم کے راہ بر ٹھہرے، پر آپ کی عظیم الشان، عظیم المرتبت ہستی مبارک کا غیر محسوس اثر نہ ماننے والوں پر بھی ہوا۔ معاشرے کی اقدار بدل گئیں بلکہ یوں کہنا چاہیے اقدار قائم ہوئیں۔ آپﷺ کو دیکھنے والے انگشت بدنداں تھے اور آج تک ہیں کہ کس قدر اعلیٰ معاشرے کی بنیاد مختصر ترین دور میں رکھ دی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مورخ اور فلاسفر Alphonse de Lamartine بھی لکھنے پر مجبور ہوا۔

”اگر غیر معمولی طور پر جینئس ہونے کا فیصلہ ان تین چیزوں پر کیا جائے۔ عظیم مقصد، انتہائی محدود ذرائع اور بے مثال نتائج، تو کوئی بھی شخص محمدﷺ کا مقابلہ کرنے کی جرآت نہیں کر سکتا۔ آپ کے مبارک ظہور سے یہ غیر معمولی انقلاب برپا ہوا کہ جہالت کے پردے چھٹنے لگے۔ اپنے آپ کو معاشرے کا فخر سمجھنے والوں کا نام و نشان مٹ گیا، اور آپ کے حسن کے سامنے منہ چھپاتے پھرنے لگے۔

حسینان عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں
پھر اس وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے خلق کامل، زہے حسن تام علیک الصلوۃ علیک السلام

وجہ تخلیق کائنات، نبیوں کے سردار، افضل الرسل، خاتم النبین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیﷺ تشریف لائے تو عالم کائنات بدل کے رہ گیا۔ ہم تواریخ عالم کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک آپﷺ کے ظہور سے پہلے کا دور ہے اور ایک بعد کی دنیا ہے۔ پھر آپ نے وہ کچھ کر دکھایا جو ناممکنات میں سے تھا۔ لیکن محبت ہے میرا پیغام جہاں تک پہنچے والا معاملہ تھا۔ دلائل و براہین ہیں میرے ہتھیار۔ انھی سے ہو گا دن آشکار۔

محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے
جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے
بیاں کر دیے سب حلال و حرام علیک الصلوۃ علیک السلام

مثل مشہور ہے کہ چاند پر تھوکنے والا اپنا منہ ہی گندا کرتا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس کا ہے، جسے رب کائنات نے چاند نہیں سورج قرار دیا ہے۔ اس پورے جوبن پر چمکتے سراج منیر پر تھوکنے والا نہ صرف اپنا منہ گندا کرتا ہے، بلکہ جلایا بھی جاتا ہے۔ اس کی لپٹیں ہر بد خواہ کو اس دنیا میں ذلیل خوار اور بھسم کرنے اور آخرت میں جلانے کے لیے کافی ہیں۔ تواریخ عالم اٹھا کر تو دیکھو۔ میرے محبوبﷺ کا کون سا بد خواہ آج تک کام یاب ہوا۔ ذلت و نامرادی و نا کامی ہمیشہ ان کا منہ چڑاتی رہی۔

اپنی سیاہ بختی سے سراج منیرﷺ پر حملہ کرنے والا یہ گیرٹ ویلڈرز پہلا دشمن نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ میرے نزدیک اہم یہ نہیں کہ دشمن کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اس صورت احوال میں اہم یہ ہے کہ ہم بطور مسلمان کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے۔ تاریکی جتنی بڑھ رہی ہے ہمیں اپنے دلوں کی لو کو اتنا ہی بلند کرنا ہے۔ جتنے حملے ذات مبارک ﷺ پر ہو رہے ہیں، اتنا ہی زیادہ میں رحمۃ اللعالمین ﷺ کے نمونوں کو اپنانا ہے۔ ہم جانتے ہیں دشمن کو معاف کرنا کہ ہمارے آقا و مولیٰ کا نمونہ ہے۔ ہمیں بھی اس روش کو ترک نہیں کرنا۔

جس برتن میں جو ہے اس سے وہی باہر نکل سکتا ہے۔ گندگی میں پلنے والا گالی نہ دے تو اور کیا اس کے منہ سے پھول جھڑیں گے۔ وہ گالی ہی دے گا۔ پر ہمارے آقاو مولیٰ نے تو ہمیں گالی دینا سکھایا ہی نہیں۔ ہم گالی دے کر کیوں اپنے آقا و مولیٰ اور محبوب خدا کو ناراض کر لیں۔ ہمیں دورود سلام بھیجنا ہے، اپنے نبی ﷺ کی ذات پر اور آپ کی آل پر۔ ہمیں درود و سلام کی صداؤں سے بھرنا ہے، اس عالم کی فضا کو۔ اتنا درود پڑھنا ہے، کہ کائنات عالم زبان احوال سے پکار اٹھے۔
؎آدم زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری گاتے ہیں جو گایا ہم نے

آپ ﷺ کی دشمنی میں ہر حد کو پھلانگ کر بے باکی دکھانے والوں کے معاملے کی سمجھ آتی ہے کہ:
شرف انسانیت کو قائم فرمانے والے آپ ﷺ ۔ معاشرتی، اخلاقی، سیاسی، سماجی، قومی و ملی اقدار قائم کرنے والے آپ۔ حقوق قائم فرمانے والے آپ۔ بچوں سے شفقت کا سلوک کرنے والے آپ۔ ہمسائیوں کو حقوق دلانے والے آپ۔ معاشرے کے کم زور طبقات کو اٹھا کر بلند کرنے والے آپ۔ غلاموں کوآزاد کرنے والے آپ۔ ان پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے آپ۔ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے آپ اور پھر یہ حقوق قائم کر کے دکھانے والے آپ۔ ماں کے قدموں میں جنت کی بشارت دینے والے آپ۔ باپ کو جنت کا دروازہ کہنے والے آپ۔

مذہبی آزادی، رواداری کے چیمپئن آپ۔ امن کے سفیر آپ۔ رحمۃ اللعالمین آپ۔ خاتم النبیین آپ۔ فخر ولد آدم آپ۔ سید ولد آدم آپ۔ فتح نصیب جرنیل آپ۔ معارف کا قلزم بے کراں آپ۔ علم کا سمندر آپ۔ ساقی کوثر آپ۔ بہادری و جوان مردی کے نمونے دکھانے والے آپ۔ کم زور ہوتے ہوئے بھی توحید کی غیرت پر خاموشی توڑ کر دشمن کو للکارنے والے آپ۔ صفات جلال اور صفات جمال میں یکتا آپ۔ خلق کے ہر رنگ میں عدیم المثال آپ۔ مکارم اخلاق کے بلند تر مقام پر فائز آپ۔ سب ہادیوں سے بڑھ کرہدایت دینے والے آپ۔ سب شجاعوں سے بڑے شجاع آپ۔ لشکر روحانی کے سردار آپ۔ سب انبیا آپ کے خوشہ چین اور سب کے سرخیل آپ۔

مندرجہ بالا بیان کردہ چند ایک خصوصیات کے علاوہ بے شمار صفات کے حامل آپ ﷺ ہیں۔ آج آپ ﷺ کا دشمن اپنے مذہب اور عقیدے میں آپ کا ہم پلہ نہ پا کر سیخ پا نہ ہو، تو اور کیا کرے۔ اپنی جلن کا اظہار نہ کرے تو کہاں جائے۔ حسد کی آگ میں نہ جلے تو اور کیا کرے، کہ اس کا کھیسا (جیب) خالی ہو چکا۔ صداقت مدھم پڑھ چکی۔ دلائل ہوا ہو گئے۔ براہین کے میدان میں ہار چکا۔ زہر آلود تیر بے اثر ہو چکے۔ شاہ سوار جہاں گیر سینہ پر چڑھ چکا۔ اور اب مقابلے کا اسے یارا نہیں۔ دشمن اوندھے منہ گر کر مٹی چاٹ چکا۔ وہ اب ہذیان گوئی کے علاوہ کیا کرے۔

ضروری یہ ہے کہ بطور غلامان محمد ﷺ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم نے دنیا کو دکھانا ہے، کہ جس نبی کو ہم مانتے ہیں، وہ محمد ﷺ (تعریف کیا گیا ) ہے۔ تم اس کا کوئی بھی نام رکھ لو وہ محمد تھا۔ محمد ہے اور محمد ہی رہے گا۔ یہ بگڑی شکلیں تمھاری اپنی ہیں۔ یہ تمھارے گند ہیں اور تمھیں مبارک ہوں۔ یہ تمھاری حسرتیں ہیں جو تمھیں جینے نہیں دیتیں۔ ان کا میرے محبوب سے کوئی تعلق تھا نہ ہے۔ وہ تو نور ہے اور نور عطا کرنے والا ہے۔ میرے محبوب سا کوئی ہے تو سامنے لائیے، کہ:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا، نام اس کا ہے محمد دل بر میرا یہی ہے۔

اگر دنیا کے سوا ارب مسلمان صحیح معنوں میں عاشق رسول بن جائیں۔ آپ کی محبت سے لب ریز ہو جائیں۔ آپ کی سیرت کے پیرو بن جائیں ۔ عشق کے مقام طے کرتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچیں کہ ہمارے درود سلام کا جواب دینے خود آپ ﷺ کی روح پلٹ آئے۔ پھر ایک گیرٹ تو کیا یہ لاکھوں بھی ہوں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ آئیے محبت کا عملی نمونہ درود سلام پڑھ کر اور سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہو کر دکھا دیں۔ اس محسن حقیقی کے احسانات کو یاد کر کر کے اسی کے رنگ میں رنگ جائیں۔

بھیج دورود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار
اللھم صلی علیٰ محمد و علیٰ آل محمد ۔ کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم۔ انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد۔ کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم۔ انک حمید مجید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).