سنی لیونے، میک اپ تو کر لو


سنی جی کو کون نہیں جانتا؟ آپ مشہور بھارتی اداکارہ ہیں۔ راگنی ایم ایم ایس، لیلی ایک پہیلی، تیرا انتظار اور کئی دیگر فلموں میں آپ ہیروئن آ چکی ہیں۔ پھر کئی فلموں میں آپ کے آئٹم نمبر آئے ہیں جیسے شاہ رخ خان کی رئیس میں ’لیلیٰ میں لیلیٰ‘۔ مگر کئی لوگ سنی جی کو ان کی فلمی اینٹری سے پہلے سے جانتے ہیں مگر اس شناسائی کے بیان سے شرماتے ہیں۔ مگر سنی لیونے کا ذکر آخر ہم کیوں کر رہے ہیں؟ ان میں دیگر ہیروئنوں سے کیا مختلف ہے؟

سنی جی کی بھارت میں آمد پروگرام بگ باس سے ہوئی۔ اس پروگرام میں ڈرامائیت پیدا کرنے کے لئے ایسے لوگ چنے جاتے ہیں جو متنازع ہوں۔ پھر یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور بگ باس بھی لوگوں کو پروگرام سے برخاست کرتے جاتے ہیں۔ خیر اس پروگرام میں پارساء لوگ تو آتے نہیں مگر اس سیزن میں بگ باس کے گھر کے بہت سے مہمانوں کو سنی لیونے جی سے گھن کھاتے دیکھا گیا۔ مگرکیوں؟ اس لئے کہ محترمہ فحش فلموں کی ’فنکارہ‘ تھیں۔

ایسے میں اس پروگرام میں مشہور ڈائریکٹر مہیش بھٹ صاحب بحیثیت مہمان ایک دن کے لئے وارد ہوئے اور انہوں نے محترمہ کو آفر کر دی کہ وہ‘ مین اسٹریم‘ فلموں میں کام کیوں نہیں کرتیں؟ مہیش جی نے ہی محترمہ کو پہلی فلم دی اور یوں وہ بھارتی فلموں کی ہیروئن بن گئیں۔ مگر آج کے دن تک محترمہ کو لے کر ’مین اسٹریم‘ سینما میں، ہدایت کاروں، اداکاروں اور الغرض سارے ہی بولی وڈ میں ایک نوع کی نفرت، حقارت، ایک گھن ہے جو پردوں میں چھپی یا کھلی سامنے آ ہی جاتی ہے۔ ڈیڑھ سال قبل ایک بھارتی چینل نے محترمہ کا انٹرویو کیا تو اس پر بھی بہت لے دے ہوئی کہ محترمہ کی توہین ہو گئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بولی وڈ کو محترمہ پر تنقید کرنے، ان کی تحقیر کرنے کا کوئی حق، کوئی اخلاقی جواز حاصل ہے؟

سنی لیونے دراصل بھارتی فلموں میں آنے سے قبل ایک کھلی فاحشہ تھی، ایک ایسی فاحشہ جس کی حقیقت سے سب واقف تھے۔ مگر پھر اس نے بھارتی فلموں کا رخ کیا اور یہاں پر بھی بالکل آسانی سے فٹ ہو گئی۔ اگر اس سے بڑے اداکار اور ہدایت کار ’تعصب‘ نہ برتیں تو وہ چند دنوں میں ہندوستان کی نمبر ون ہیروئن بن سکتی ہے، مگر اس سے ’تعصب‘ برتا جاتا ہے جس پر سنی حیران ہوتی ہے۔ اسے ایک ’گندی‘ ہیروئن سمجھا جاتا ہے۔

فلم انڈسٹری اور خاص طور پر بھارتی فلم انڈسٹری کی تو ہم نے ہوا بھی نہیں دیکھی مگر میڈیا انڈسٹری کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا تھوڑا سا موقع ضرور ملا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک جو بڑی پارسائی کے پردے میں چھپا ادارہ ہے اس کی بھی اندروی حقیقت آج سے کوئی 25 یا 30 سال قبل اچھی نہ تھی۔

نجی میڈیا اور اشتہاری ایجنسیز میں بھی یہ ماحول موجود ہے، کیٹ واک کرنے والی ماڈلز سے لے کر چھوٹی موٹی اداکارائیں، ماڈلز کی اکثریت ’پارٹ ٹائم‘ جابز بھی کرتی ہیں اور ماڈلنگ یا اداکاری ہی ان کی پارٹ ٹائم جاب ہوتی ہے۔ خیر یہ ماحول صرف میڈیا کے لئے ہی مخصوص تو ہے نہیں، اسپتال، اسکول، کالج، جامعات، ایئر لائنز، فیکٹریاں، الغرض جو بھی ادارہ اٹھاؤ وہاں وہاں کچھ نہ کچھ ’پارٹ ٹائم‘ انتظامات اور کندھے پر رومال ڈالے ’فرنٹ مین‘ مل ہی جاتے ہیں۔ اس فیلڈ کے گھاگ لوگ ایک منٹ میں سمجھ جاتے ہیں کہ کہاں کہاں امکانی طور پر ’گیم‘ ہو رہا ہے۔ تاہم میڈیا انڈسٹری اس قحبہ گری کی ’ہول سیل مارکیٹ‘ ہے۔ پھر فلم انڈسٹری تو سارے ہی میڈیا کا قلب ہے تو یہ قلب کیسے اس وائرس سے پاک ہو سکتا ہے؟

سنی لیونے تو کھل کر ایک چیز ہے کیونکہ اس کی فحش وڈیوز سب کو درکار ہیں، اس لئے وہ سب کی نظروں میں گندی ہے مگر ترقی کے زینے پر چڑھنے کے لئے اور سب اداکارائیں اس‘ بارٹر ٹریڈ‘ سے محفوظ رہی ہیں یہ کون کہہ سکتا ہے؟ شاید کوئی نرا احمق۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ آج سے کوئی 10 سال قبل تک بھارت کی ایک مشہور ہیروئن اور سابقہ مس ورلڈ کی ’خدمات‘ حاصل کرنے کے لئے بھی دبئی کے ایگزیکٹو کلاس کے ریٹرن ٹکٹ، ایگزیکٹو ایکوموڈیشن اور 8 لاکھ ہندوستانی روپے درکار ہوتے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ بات جھوٹ ہو مگر اس دعویٰ میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ ’قیمت ’ کے حوالے سے ہوسکتا ہے۔ آٹھ لاکھ کو آٹھ کروڑ کر لیجیے تو یہ ممکنہ جھوٹ، محکم سچ بن جائے گا۔ بات قیمت کی ہے، کسی اخلاقی وجوہ کی نہیں۔ اداکاروں، اداکاراؤں کو ایک امیج لے کر چلنا ہوتا ہے جب کہ فاحشاؤں کو اور ان کے دلالوں کو کسی امیج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ورنہ اخلاقیات دراصل اداکاروں کے لئے الا ماشاء اللہ ایک مذاق ہے، ایک ہنسنے کی شے۔

ویسے بھی عہد جدید کے لامذہب سماجوں میں تو جسم کو انسان کی ملکیت مان ہی لیا گیا ہے۔ جسم ملکیت ہے اس لئے کوئی اپنا آپریشن کر کے سر پر سینگ لگوا رہا ہے، کوئی سارا جسم گدوا رہا ہے، کسی کو برہنہ رہنے کا شوق ہے، کوئی اپنا جسم بیچ رہا ہے اور کوئی اپنی جنس بدلوا رہا ہے کیونکہ لا مذہب ’لبرل‘ معاشرے کا تو نعرہ ہی یہی ہے کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ ایسے میں بھلا سنی لیونے کو کیوں احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے؟

تیزی سے مغربیت کے بخار میں ڈوبتے ہوئے بھارت میں سنی لیونے کی تحقیر کا صریحاً کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ وہ وہی کچھ ہے جو باقی سب لوگ ہیں۔ سنی لیونے ہونے کے لئے اداکارہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ ایسی دکان تو بیوٹی پارلر بلکہ اسکول کے نام پر بھی کھولی جا سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب اخلاقیات اندر سے نہ ہو تو باہر سے وہ صرف ایک میک اپ ہوتی ہے۔ ترقی کے جنون میں اخلاقیات تو سب نے ہی بیچ دی ہیں، سنی نے کوئی اخلاقیات کا میک اپ بھی نہیں کیا ہوا، اس لئے وہ لوگوں کو بری لگتی ہے اور لوگ اسے اشارے سے، سرگوشی سے یہ کہتے رہتے ہیں ’میک اپ تو کر لو‘ اور وہ اکڑ کر بولتی ہے کہ ’میک اپ کی بھی کیا ضرورت ہے؟ ‘ اور لوگ تعصب سے منہ ٹیڑھا کر لیتے ہیں مگر یہ تعصب بھی کب تک چلے گا؟ اخلاقیات تو کب کی مر چکی، اس کی لاش کے ماسک بنا کر چہروں پر سجانے کی یہ روایت بھی جلد مر ہی جائے گی اور فتح سنی لیونے کی ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).