سپریم کورٹ کے وکلا کے لئے زمینوں کا جبری حصول


مدون انسانی تاریخ ہجرت، شہر و ملک بدری اور اپنی جنم بھومی سے بے دخلی میں چند مخصوص عناصر کار فرما رہے ہیں۔ کہیں دست اجل کا قہر انسانی بستیوں کو تاراج کرتا ہے اور کہیں انسان کا اپنے ہمزاد پہ جبر و ستم اسے اپنی سر زمین سے دیس نکالے کا مژدہ جان کن سناتا ہے اور کہیں کسی ظالم و جابر حکمرا ن کی حرص و ہوس انسانوں کے پاوَں تلے سے زمین کھینچ لیتی ہے۔ جائے پیدائش سے ہجر کا دکھ اگر سمجھنا ہو تو پناہ گزینوں کے کیمپ میں لگے ہر اک خیمے میں کہیں کسی جھری زدہ گالوں پہ روئے آنسوَوں میں ، کسی بچپنے کے نرم و گداز ہاتھوں اور نگاہوں کو اپنے ہمجولیوں، کھلونوں اور کھیلنے کے میدانوں کو ڈھونڈتی نگاہوں اور کہیں سر شام ان خیموں میں بلکتے بچوں کو دی جانے والی لوریوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اپنی مٹی سے محبت عام انسان تو کیا انبیا کا بھی وصف رہا ہے۔ اگر یوں نہ ہوتا تو مخمد صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ہجرت کی رات مکہ کی گلیوں کو اپنے اشکوں سے وضو نہ کرتے۔ مگر میں انسانوں کی ان کی اپنی زمین سے بے دخلی کی ایسی داستان رقم کرنے جا رہی ہوں کہ جہاں کوئی ناگہانی آفت ٹوٹی اور نہ کوئی ظالم و سفاک حکمران نازل ہوا۔ لوگ اپنے آباوَ اجداد کی زمینیوں کی ملکیت سے ایک عدالتی فرمان سے محروم ہو گئے۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ دستور پاکستان کے آرٹیکل چوبیس اور لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 میں دیے گئے تمام آئینی اور قانونی تحفظ کے باوجود ضلع اسلام آباد کے دو مو ضع جات، تمع اور موہریاں کے رہائشی اپنی آبائی زمینوں سے محروم کر دیے گئے کیونکہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی شق نمبر پانچ کو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے معطل کر کے ان لاوارث لوگوں کو تمام قانونی چارہ جوئی سے محروم کر دیا ہے۔

مزید بر آں سپریم کورٹ کے چوٹی کے تمام وکلاء نے ان کے کیس کی پیروی سے انکار کر دیا ہے۔ نعیم بخاری صاحب نے ان کا کیس لڑنے کی حامی بھری اور مقدمہ ہائی کورٹ میں درج کیا ہے۔ جو تا حال زیر سماعت ہے۔ اسی اثناء میں 10 اگست 2018 کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور فیڈرل گورنمنٹ امپلائز ہاوَسنگ اسکیم کے مقدمہ میں مذکورہ بالا زمین کا ایوارڈ کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اور یوں علاقہ کے غریب مکین اپنے کھیتوں کھلیانوں سے محروم کر دیے گئے۔

اپنے تحریری حکم میں چار رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس صاحب کر رہے تھے نے ضلعی انتظامیہ کو پابند کیا کہ ڈیڑھ مہینہ کے اندر تمام رسمی کارروائی پوری کر کے زمین کی ملکیت اور قبضہ فاوَنڈیشن کے نام منتقل کر کے رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جائے۔ عدالت نے جہاں سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء کو چھت کی فراہمی کے لئے زمین فراہم کی وہیں غریب مالکان کے زخموں پہ مرہم رکھتے ہوئے کہا کہ ان سے زبردستی زمین لیتے ہوئے پیار سے بات کی جائے۔

زمین کے سیاہ بخت مالکان کو کوئی وکیل ملا اور نہ ہی عدالت عظمیٰ میں داخلہ کی اجازت۔ دی نیوز اور جنگ میں فخر درانی صاحب کی اسٹوری چھپنے کے بعد ایک دو مالکان کو سپریم کورٹ جانے کی اجازت ملی لیکن آئین اور قوانین سے نا بلدیہ ان پڑھ زمینی مخلوق سینئر وکلاء کے دلائل کے سامنے بے بس ٹھہری اور یہ سمجھنے سے قاصر رہی بڑے شہروں کی رونقیں غریبوں کی زمینوں پہ جبری قبضوں سے ہی کیوں ظہور پزیر ہوتی ہیں۔

اگر وکلاء کو کروڑوں روپے فی کنال قیمت کی زمین چالیس لاکھ روپے میں میں دستیاب نہ ہو گی اور وہ بھی پارک روڈ پر تو وہ دلجمعی سے عدالتی فرائض ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اگر وکیل کا ذہن منتشر رہے گا تو قانون و آئین کی عقلی شیرازہ بندی کیسے ممکن ہے؟ ان پڑھ زمینی مخلوق دور حاضر میں چلنے والے بڑے بڑے عدالتی کیسز کی اہمیت کو یکسر فراموش کر کےاپنے کھیتوں، کھلیانوں اور قبرستانوں کے چھن جانے کے غم پہ ماتم کرتے رہے۔

عدالت عظمیٰ میں وکلاء اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس، این آر او کیس، پانامہ کیس، ڈیم کی تعمیر کا کیس، شعبہ ہائے صحت و تعلیم کی بحالی کے سو وَ موٹو نوٹسز جیسے کیسز پہ خوون پسینی ایک کیئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کیسز سے ملک و ملت کا مستقبل وابستہ ہے۔ اور یہ ان پڑھ دیہاتی اپنے جاہل مطلق آباء کی چند ہزار کنال زمین اور چند سو قبروں کے لئے دکھیاری ہوئے پھر رہے ہیں۔ اور اوپر سے ملک کی نوزائیدہ پارلیمان اور آزاد میڈیا سے ہمدردی کی امید لئے پھر رہے ہیں۔ نو منتخب وزیر اعظم جن کی آواز غریب کے ذکر پر ہی روندھیا جاتی ہے، غریبوں کو یہ کہہ کر ”کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر“ وزیر اعظم ہاوَس میں فروکش ہو چکے ہیں۔

پارلیمان کے ممبران جمہوری سوداگری میں مصروف ہیں کہ یہی مال و زر بکے گا تو کاروان جمہوریت آگے بڑھے گا۔ آزاد ٹی وی چینلز وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر اور سائیکل کے سفر کے تقابلی جائزہ میں مصروف ہیں لیکن یہ بخت آزردہ مخلوق ان تمام مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ چہرے پہ جھریوں کے انبار لئے ہوئے یہ کمر خمیدہ بوڑھے آئین، قانون، منطق اور فلسفہ سے کورے آنکھوں میں آنسووَں کی پھوار لئے کپکپاتے ہونٹوں سے بس ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ یہ کونسا قانون ہے کہ وکلاء اور سرکاری افسران کے محلات اور کوٹھیاں ہمارے غربت کدوں کو ڈھا کر تعمیر کیئے جائیں؟

ریاست کے تمام ستونوں کے پاس ان جاہل اور گنوار لوگوں کی بات سننے اور سمجھنے کا وقت نہیں۔ لہذا حکم عدل یہی ہے کہ ڈیڑھ مہینہ کے اندر اندر چپ چاپ اپنی آبائی زمین بحق سرکار خالی کر کے چلتے بنیں۔ اگر زمینوں سے بہت ہی پیار ہے تو اگلے چند ماہ میں جب سرکاری افسران، وکلاء اور اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کی رہائشی کالونی تعمیراتی کام شروع ہو تو وہاں بطور مزدور کام کریں۔ وہیں اپنا پسینہ اور اشک بہائیں کہ وہاں اگر ان کے جسد ہائے خاکی دفن نہیں ہو سکتے، پسینہ اور آنسو توجذب ہو سکتے ہیں۔ کل کلاں ان ہی کے بچے ان شاندار محلات کے درمیان گلیوں میں خانچہ فروشی بھی کر سکتے ہیں۔

سبزی اور پھل بھی وافر بکے گا اور عدالتی ردی بھی وافر ملے گی کیونکہ یہ وکلاء اور منصفین کا مسکن ہے۔ عدل ملے نہ ملے لیکن قانونی موشگافیوں پر ردی کے ڈھیر ضرور ملیں گے۔ کسی سعادت مند کو وکیل کے منشی کی نوکری، کسی کو سپریم کورٹ بار میں چائے کی کینٹین کا ٹھیکہ اور کسی کو عدالتی محرر کی کرسی بھی نصیب ہو جائے گی۔ تب انھیں دس اگست 2018 کے فیصلے کے رموزحکمت سمجھ آئیں گے کہ ان کے آباء کی اپنی زمینوں سے جبری بے دخلی میں ان کے نالائق بچوں کے روزگار کا راز پنہاں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).