امریکہ کے ساتھ تعلقات اور لڑکھڑاتی سفارت کاری


امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کی دو روز بعد اسلام آباد آمد سے قبل امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی 300 ملین ڈالر کی امداد بند کرنے کا اعلان کر کے یہ واضح کیا ہے کہ اسلام آباد نے اگر امریکی مطالبوں کے مطابق افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کی تو امریکہ امداد بند کرنے کے علاوہ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ سفارت کاری کے ابتدائی اسباق میں ٹھوکریں کھاتی تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس پیغام کو سمجھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے پاکستانی میڈیا کے ذریعے امریکہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ تین سو ملین ڈالر پاکستان کو امداد کی مد میں نہیں ملنے والے تھے بلکہ یہ رقم دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے کولیشن اسپورٹ فنڈ سے ادا ہونی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کی سیدھی بات کا سیدھا جواب دینے کی بجائے تجربہ کار شاہ محمود قریشی امریکہ کو اصولوں اور اخلاقیات کا سبق پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ علم ہونا چاہئے تھا کہ سفارت کاری اور دو ملکوں کے باہمی تعلقات میں اخلاقیات اور اصول کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ مفادات کی بنیاد پر معاملات طے ہوتے ہیں۔ وزیر خارجہ اگر سابقہ حکومت کی نااہلی کو امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے اصول وزیر اعظم ہاؤس یا وزارت خارجہ میں طے نہیں ہوتے بلکہ ان کا خاکہ وہیں تیار ہوتا ہے جہاں شاہ محمود عمران خان کے ساتھ جمعرات کو آٹھ گھنٹے بتا کر آئے تھے۔ اور جس طویل ملاقات کے بارے میں شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ کہنا ہے کہ فوج نے حکومت کی تابع فرمانی کا یقین دلایا ہے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالےسے ملک کی نئی حکومت پہلے دن سے غلط رویہ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت امریکہ کے ساتھ دباؤ میں آکر بات نہیں کرے گی بلکہ اس سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کے بیانات اور انٹرویوز میں تاثر دینے کے علاوہ گزشتہ ہفتہ کے دوران عمران خان کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کی ٹیلی فون کال کی بنیاد پر تنازعہ کھڑا کرکے بھد اڑائی گئی تھی۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اس حوالہ سے کہا تھا کہ پومیو نے وزیر اعظم عمران خان کو مبارک باد دینے کے علاوہ پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کی پیش کش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں پاکستانی علاقوں میں افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف سرگرم عناصر سے نبرد آزما ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔

یہ بیان سامنے آتے ہی پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اس بات کی تردید کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر اعظم سے افغان دہشت گردوں کے خلاف کام کرنے کی بات کی ہے۔ اس پر امریکیوں نے جب اپنا مؤقف تبدیل کرنے سے انکار کردیا تو عید کی چھٹیاں گزارنے کے لئے ملتان گئے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد واپس آتے ہی قومی عزت و وقار کے جذبات سے لبریز پریس بریفنگ میں اصرار کیا کہ مائیک پومیو نے عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے دہشت گردی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اس موقع پر یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ موجودہ امریکی حکومت شدت سے یہ مؤقف دہراتی رہی ہے اور اسی لئے پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ امریکہ میں پاک فوج کے افسروں کی تربیتی پروگرام بھی بند کرچکی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے قبائیلی علاقوں میں صرف ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے جو اس کے لئے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کو بدستور پاکستان میں پناہ ملتی ہے یا وہ یہاں سے ان حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

اس دو ٹوک امریکی مؤقف کی روشنی میں یہ بات بعید از قیاس تھی کہ امریکی وزیر خارجہ نومنتخب پاکستانی وزیر اعظم کو فون کرے لیکن ان کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردی اور پاکستان کے کردار پر بات نہ کرے۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے سنجیدہ امریکی شکایت پر سفارتی تنازعہ بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ اپنے مؤقف پر قائم رہا اور پاکستانی وزارت خارجہ ایک دو روز بیانات دینے کے بعد اب یہ کہنے لگی ہے کہ وہ اس بات پر اصرار کرنے کی بجائے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ کی منگل کو اسلام آباد آمد کے موقع پر کھلے دل سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے بات کی جائے گی۔ اس تبدیل شدہ مؤقف کو سامنے آئے ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو تین سو ملین ڈالر کی امداد دینے سے انکار کردیا ہے۔ اب شاہ محمود قریشی یہ بتا رہے ہیں کہ یہ رقم کوئی امداد تھوڑی ہے بلکہ پاکستان کا ’محنتانہ‘ ہے کیوں کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں یہ مالی نقصان برداشت کیا ہے اور جانیں قربان کی ہیں۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali