کامیاب کیرئیر اور ترقی کرنے کا تھکا دینے والا سفر


انسان کا سفر ضرورتوں سے شروع ہوتا ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کب یہ سفر ضرورتوں سے ہٹ کر خواہشات، پیسے جمع کرنے کے شوق، نوٹ گننے یا بینک بیلنس بنانے کی ہابی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ گھر سے ضرورتیں پوری کرنے نکلے تھے اور پھر آج تک گاؤں مستقل واپسی نہیں ہو سکی۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کو اسی آس پر چھوڑا تھا کہ ترقی کر کے ماں باپ کے ادھورے خواب پورے کریں گے، بہن بھائیوں کا سہارا بنیں گے، مل کر اچھا کھانا کھایا کریں گے، اپنی موٹر سائیکل ہو گی، اپنی کار خریدیں گے۔ خواب تھے اور خواب بھی ایسے جن کے بارے میں یقین تھا کہ ان سب کو تو تعبیر نہیں ملنی لیکن چند ایک تو شاید پورے ہو ہی جائیں۔

اس سے پہلے میں آپ کو دو واقعات سنانا چاہتا ہوں۔ یہ سن دو ہزار تین اور چار کی بات ہے۔ میری ایک بہت ہی عزیز ساتھی تھیں مستبشرہ قدوس، وہ دوست بھی تھیں اور مجھے اپنے بھائیوں کی طرح پیار بھی کرتی تھیں بلکہ اب بھی ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ ہم اپنی دکھ سکھ کی باتیں بھی ایک دوسرے سے شئیر کر لیتے تھے۔ مستبشرہ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا، اپنے کھیتوں میں ٹریکٹر چلانے کے علاوہ لاہور میں کنگفو کی کلاسز بھی لیتی تھیں۔ ماس کمیونیکشن کے بعد اس نے اسلام آباد میں جیو جوائن کر لیا تھا۔ مستبشرہ نے ایک دن بتایا کہ اس نے جیو چھوڑ کر پی ٹی وی میں ملازمت کر لی ہے۔ میں نے کہا تم پاگل ہو گئی ہو، جیو کو چھوڑ رہی ہو؟ جیو ان دنوں اپنے عروج پر تھا، ہر ایک کی زبان پر تھا اور پاکستان میں ٹی وی کا مطلب ہی صرف جیو تھا۔

مستبشرہ نے کہا کہ دیکھو ماٹی (مجھے لاہور میں سبھی ماٹی کے نام سے ہی جانتے تھے) ایک وقت آتا ہے کہ بندہ شہرت کے بجائے اپنی آسانیاں دیکھتا ہے، اپنا آرام دیکھتا ہے، مجھے جیو میں تیس ہزار ملتے ہیں، کام پر جانے کا وقت ہے، آنے کا نہیں ہے۔ ادھر پی ٹی وی میں تنخواہ بھی ساٹھ ہزار کے قریب ہے اور ہفتے میں دو یا تین اسائنمنٹس ملتی ہیں۔ میں نے خالی شہرت کو چاٹنا ہے بیٹھ کر ؟

اس وقت مستبشرہ کی بات میں نے سن تو لی تھی لیکن مجھے کچھ خاص سمجھ نہیں آئی تھی۔

پھر سن دو ہزار آٹھ میں پہلی مرتبہ میری ملاقات جرمنی کے گلوبل میڈیا فورم میں حامد میر صاحب سے ہوئی۔ ہم ایک بحری کشتی پر تھے۔ حامد میر صاحب کے ساتھ ہماری ایک ساتھی سُونندا راؤ بھی کھڑی تھیں، جو اب بھارت منتقل ہو چکی ہیں۔ میں نے میر صاحب سے پوچھا کہ حامد بھائی آپ کے پاس شہرت بھی ہے، لوگ آپ کو ہیروز کی طرح پوجتے بھی ہیں اور ظاہر ہے آپ کی انکم بھی اچھی ہو گی تو اب مزید آپ کیا چاہتے ہیں، اب آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟

حامد صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ میں اب میں اپنے رب سے صرف اور صرف عزت چاہتا ہوں۔

آج سے تقریبا چار برس پہلے ایک رات میں اپنی زندگی اور صحافت میں مزید ترقی کے لیے مزید تانے بانے بُن رہا تھا کہ یہ دونوں واقعات مجھے یاد آ گئے۔ پھر مجھے یہ خیال آیا کہ ایک وقت تھا جب ارشاد احمد حقانی صاحب پاکستانی میڈیا کے ستون شمار ہوتے تھے۔ جنگ کو ان کے کالم “حرف تمنا” کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا تھا۔مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ مشرف دور میں وہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے تو نواز شریف نے بیرون ملک سے اور اندرون ملک تمام بڑے بڑے سیاستدانوں نے انہیں پھولوں کے گلدستے بجھوائے تھے۔ ہسپتال کے کمرے میں ان کی ایک تصویر جنگ اخبار میں چھپی تھی اور کمرہ گلدستوں سے بھرا پڑا تھا۔

لیکن پھر بعد میں میں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب جنوری دو ہزار دس میں ان کا انتقال ہوا تو گنتی کے چند لوگ ہی ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ لازوال دوستی کا دم بھرنے والے صحافی بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے ۔

چار برس پہلے مجھے اپنا انجام اس سے بھی کئی گنا برا نظر آیا، میں اسی کشمکش میں تھا کہ میرے پاس ابھی کیا کیا نہیں ہے اور اب مزید کتنی ترقی کرنی ہے؟

پھر میں نے حساب کتاب لگایا تو پتا چلا کہ میں نے جو گاؤں کے کھیتوں میں بیٹھ کر خواب دیکھے تھے، وہ تو کب کے پورے ہو بھی چکے ہیں لیکن مجھے پتا ہی نہیں چلا، میں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا یا اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔

مجھے ایک اچھی نوکری بھی مل چکی ہے، جو بندہ سارا بچپن سائیکل کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہو، وہ اب کار خرید چکا ہے، اپنا گھر بنا چکا ہے، والدین عمرہ بھی کر چکے ہیں، بہن بھائیوں کے بھی کوئی بڑے مسئلے نہیں ہیں، میں جب چاہوں، جو چاہوں خرید کر کھا سکتا ہوں، جس ملک چاہوں سیر کے لیے جا سکتا ہوں تو اب بچ کیا گیا ہے؟ ایک عام پاکستانی کے شاید کامیابی کے یہی معیارات ہوتے ہیں۔

اس وقت شاید پہلی مرتبہ مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے میری اوقات سے بہت سے زیادہ مل چکا ہے لیکن مجھے اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔

ایک وقت تھا کہ جب میں کرایے کے تین روپے کی بچت کے لیے پانچ پانچ کلومیٹر پیدل چلتا تھا، ایک مرتبہ دو ماہ بعد دودھ کا ایک ٹھنڈا گلاس پیا تھا تو سوچا تھا کہ یا خدائے ذوالجلال یہ روز نہیں مل سکتا ؟ نیڈو کا وہ آدھ کلو کا دودھ کا ڈبہ بھی ہم تین دوستوں نے مل کر خریدا تھا اور مقدار بڑھانے کے لیے اس میں پانی ڈال دیا تھا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اب مجھے مزید کتنا کچھ چاہیے ؟

اس وقت سوچتے سوچتے پہلی مرتبہ مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ صرف ایک سوچ کا فرق ہے۔ ایک سوچ یہ ہے کہ میرے پاس ابھی بہت کچھ نہیں ہے اور ایک سوچ یہ ہے کہ مجھے بہت کچھ مل چکا ہے۔

دوسری سوچ فوری طور پر آپ کو شکر کرنے پر اور پہلی سوچ فوری طور پر شکوہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ دوسری سوچ آپ کے اندر ٹھہراو اور خوشی کا احساس پیدا کرتی ہے اور پہلی سوچ مزید بھاگ دوڑ اور مزید بے چینی کا سبب بنتی ہے۔

چار برس پہلے انہی سوچوں کے دریا میں بہتے بہتے میں نے ارادہ کیا تھا کہ اب میں اپنی زندگی آرام سکون سے گزاروں گا، جو باقی بچی ہے اسے انجوائے کروں گا، میں اب ضرورت سے زیادہ محنت نہیں کروں گا۔

یقین کیجیے اس ایک خیال سے ہی زندگی میں کچھ سکون سا آ گیا تھا۔ میں اب بھی محنت کر رہا ہوں، ابھی بھی ملازمت جاری ہے لیکن اب یہ مجھے بوجھ نہیں لگتی۔ مجھے بہت کچھ مل چکا ہے کی سوچ کی وجہ سے میں بڑے پرسکون انداز اور بلا اسٹریس کے یہ کام جاری رکھے ہوئے ہوں۔ گزشتہ چار برسوں سے میری سیاحتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ میں واک زیادہ کرتا ہوں، سائیکلنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے میری ضرورت سے زیادہ دیا ہے۔

آج بھی مجھے میرے زیادہ تر قریبی دوست کہتے ہیں کہ امتیاز تم محنت کرو، تم ترقی کر سکتے ہیں۔ تم ایک کامیاب صحافی بن سکتے ہو، اچھے رائٹر بن سکتے، اپنے آفس میں مزید ترقی کر سکتے ہو وغیرہ وغیرہ۔

میرے کچھ کامیاب دوست سمجھتے ہیں کہ میں ابھی بہت پیچھے ہوں۔ ان کی نظر سے دیکھوں تو واقعی میں بہت پیچھے ہوں لیکن میں اپنے گاوں سے لے کر جرمنی تک کا سفر دیکھوں تو یہ مجھے بہت بڑی چھلانگ لگتی ہے۔

میں اپنے زیادہ تر قریبی دوستوں کو بتا چکا ہوں کہ فی الحال میں موجودہ حالات میں بہت خوش ہوں۔ میں اپنے کمفرٹ زون میں ہوں اور اب مزید ترقی کا خواہش مند بھی نہیں رہا۔ مجھے مستبشرہ کی یہ بات چار سال پہلے سمجھ آئی تھی کہ ایک وقت آتا ہے، جب انسان اپنے آرام اور سکون کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ پھر وہ ٹائی سوٹ کے ساتھ چپل بھی پہن لے تو اسے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔

لیکن یہ میری ذاتی سوچ ہے جو کل کو بدل بھی سکتی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ محنت ترک کر دیں یا ترقی نہ کریں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ایک مرتبہ یہ ضرور سوچیں کہ آپ کو کیا کیا مل چکا ہے؟ جو چیزیں نہیں ہیں ان کی بجائے ان چیزوں کی طرف ایک مرتبہ ضرور دیکھیں جو آپ کے پاس موجود ہیں، اس سوچ سے آپ کے ذہن میں موجود ایک اَن دیکھا اور اَن سوچا بوجھ اتر جائے گا۔

 انسان کی حرص اور خواہشات تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتیں۔ بلکہ حرص تو ایک عمل اور ردعمل کے تحت کام کرتی ہے، یہ ایک ایسا چشمہ ہے، جس سے آپ جتنا پانی پیتے ہیں، پیاس اسی قدر بڑھتی جاتی ہے۔

میرے ایک دوست تنویر میامی میں ہوتے ہیں۔ فرسٹ ائیر میں ان کے ایک کزن شفیق الرحمان سے ملاقات ہوئی، جو رائے ونڈ میں مقیم تھے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں کہا تھا کہ اگر آپ کے پاس پانچ روپے ہیں اور آپ ان کے ساتھ ہی مطمئن ہیں تو آپ اس دنیا کے بادشاہ ہیں۔ اور اگر آپ کے پاس پانچ کروڑ ہیں اور آپ کی پیاس ختم نہیں ہو رہی تو یقین رکھیے آپ لینڈ کروز میں بیٹھے ہوئے اس دنیا کے سوٹیڈ بوٹیڈ فقیر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).