دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

شیلندر نے گیت لکھا اور مکیش نے گا دیا۔ ’دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا‘۔ بخدا کبھی گمان تک نہ ہوا تھا کہ یہ غمگین گیت کسی ٹوٹے دل عاشق کی پکار نہیں ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تبصرہ ہے۔

واہ کیا دن ہوا کرتے تھے جب بھارت سے ہم رن جماتے تھے۔ ایک طرف انڈونیشیا سے صدر سوئیکارنو اس میں پاکستان کی طرف سے لڑنے کے لیے اپنی آبدوزیں بھیج دیتے تھے، شاہ ایران اپنے ائیر بیس اور خزانوں کے منہ پاکستان کے لیے کھول دیتے تھے۔ چین میں فوجی نہ سہی، مگر سفارتی ہل چل مچ جاتی تھی۔ لیبیا کے کرنل قذافی، شام کے حافظ الاسد، سعودی عرب کے شاہ فیصل، متحدہ عرب امارات کے النہیان تڑپ اٹھتے تھے کہ پاکستان کی مدد کیسے کریں اور بھارت کو کیسے مزا چکھائیں۔ بس ایک مغربی سرحد پر افغانستان ہی تھا جو کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتا تھا کہ ’ازلی دشمن پاکستان‘ اب ’دائمی دوست بھارت‘ سے شکست کھا لے۔

مگر پھر وہ ہوا جسے شاعر ظہیر کاشمیری نے کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے

موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے

جب پاکستان درد جہاں میں پڑنے لگا، ایک طرف کشمیر میں پراکسی وار کے ذریعے مہم جوئی ہوئی، اور دوسری طرف افغانستان میں ’مجاہدین‘ کی مدد کی خاطر روس اور چین سے لے کر مصر و افریقہ تک کے جہادیوں کو اپنے ہاں لا بسایا، تو حالات نے پلٹا کھایا۔ ’اسلامی انقلاب‘ کے بعد ایران نے اسے پاکستان میں بھی ایکسپورٹ کرنے کی کوشش شروع کر دی اور پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ بدامنی میں سعودی عرب اور اس کا نام بھی آنے لگا، مگر افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد تو ایران بھی کھلا دشمن ہو گیا۔ عربوں کو بھی تشویش ہونے لگی کہ اس خطے میں مقیم عرب جہادی ان کے لیے خطرہ ہیں۔ چین سے بھی خبریں آنے لگیں کہ سنکیانگ میں دہشت گردی کی جڑیں پاکستان میں مقیم جہادی کیمپوں سے پھوٹتی ہیں۔

\"55d4f89e1843e\"

پھر حالات نے ایک اور پلٹا کھایا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر گوادر کی بندرگاہ کو ترقی دینا شروع کی۔ پتہ چلا کہ بھارت ہی نہیں، بلکہ برادر اسلامی ممالک بھی گوادر کے اس حد تک خلاف ہیں کہ اسے ناکام بنانے کی خاطر بلوچستان کی عسکریت پسندی میں ان برادران کا نام بھی آنے لگا ہے۔ پاکستان سے تمام اسلامی اخوت بھلا کر وہ سارے برادران یوسف محض معیشت کی خاطر بھارت سے مل گئے اور پاکستان کے خلاف کام ہونے لگا۔

مگر انتہا یہ ہوئی ہے کہ جب صدیوں پرانی ایرانی عرب جنگ شام و یمن تک آن پہنچی، تو سعودی عرب اور امارات نے کچھ ایسے مطالبات کیے جو پاکستان کو قبول نہیں تھے۔ پاکستان اپنی فوج کو یمن میں الجھانے سے انکاری تھا جو کہ ان دو ممالک کو قبول نہیں تھا۔ یمن میں چند دہائیاں پہلے سعودی عرب جس فریق کا اتحادی تھا، بدلے ہوئے سیاسی حالات میں اب وہ اسے بدعقیدہ مسلمان نظر آنے لگا اور اس سے جنگ ہونے لگی۔

دوسری طرف مسلم برادر ملک امارات اور سعودی عرب یکلخت پاکستان کو بھول کر گجرات میں مسلمانوں کے قتل سے بدنام ہونے والے ہندوتوا کے علمبردار نریندر مودی کو پذیرائی دینے لگے۔ مودی جی امارات میں ہندو مندروں میں بھگوان کو پوجتے پائے گئے اور ان کے ساتھ ہی اماراتی حکمران بھی تھے۔ بھارت کے اماراتی عربوں سے اربوں ڈالر کے سودے ہوئے۔

\"32CF796A00000578-3521842-image-a-1_1459723623339\"

پھر مودی جی کا اگلا قدم سعودی عرب کی متبرک فضاؤں میں پڑا جہاں کے گلی کوچوں میں پہلی مرتبہ ترنگا لہرایا اور ایک بار پھر اربوں ڈالر کی بات ہوئی۔ وہ ملک جہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے، اسی میں خواتین سے بھرے ہوئے کال سینٹر میں مودی جی نامحرم عورتوں کے ساتھ سیلفیاں بنواتے پائے گئے۔

ان کا آخری قدم ایران میں پڑا جہاں بھارت ایک مرتبہ پھر اربوں ڈالر کے سودے کرتا پایا گیا اور گوادر کے مقابلے میں اس سے پونے دو سو کلومیٹر دور ایرانی بندرگاہ چابہار کی بندرگاہ کی تعمیر میں جت گیا تاکہ اس کے راستے افغانستان سے ہوتے ہوئے وسط ایشیا اور ایران کے ذریعے یورپ سے تجارت کر سکے۔ ایران میں امن ہے، جبکہ بلوچستان کے آخری سرے پر واقعی گوادر کا راستہ ہمارے برادران کی مہربانی سے شورش زدہ ہے۔ تجارت اور پیسہ امن کی طرف جاتے ہیں اور بدامنی سے دور بھاگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں گوادر کی بندرگار زیادہ کامیاب ہو گی یا چابہار کی؟

\"475451-modiaward700\"

صاحبو، کیا ہم جذباتی لوگ واقعی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملکوں کے آپسی تعلقات بھائی چارے یا مذہبی اخوت پر مبنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ باہمی مفادات اہم ہوتے ہیں۔ اور ان مفادات میں اہم ترین معیشت ہوتی ہے۔ جہاں سے چار پیسے بنتے ہیں، وہی سب سے قریبی برادر ملک ہوتا ہے۔ اب جنگیں ہتھیاروں سے نہیں، معیشت سے لڑی جاتی ہیں۔ تاریخ انسانی کی بڑی بڑی فوجی طاقتیں اس وجہ سے ختم ہو گئیں کہ ان کے پاس ایسی معیشت نہیں تھی جو کہ ان کی فوج کا خرچہ اٹھا سکے۔ سپر پاور سوویت یونین کا انہدام ابھی بہت پرانی بات تو نہیں ہے۔

\"Chabahar-vs-Gwadar-map\"

ایسے میں گوادر سے خوفزدہ خلیجی ممالک اگر پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، کہ اس کے پاس تیل خریدنے کا پیسہ بھی ہے اور کھپت بھی، اور اس کے پاس سرمایہ کاری کرنے کو ٹیکنالوجی بھی ہے اور ڈالر بھی، تو غریب ہوتے عرب ممالک کو وہ پاکستان سے زیادہ سگا بھائی ہی دکھے گا۔ حالانکہ یہی بھارت تھا جس کے خلاف ایران کسی زمانے میں پاکستان کا جنگ میں بھی عملی ساتھ دے رہا تھا۔

چابہار میں بھارتی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے بھارت کو واہگہ سے خیبر تک کا ٹرانزٹ ٹریڈ کا سستا ترین راستہ دینے سے انکار کیا ہوا ہے۔ کشمیر اور سیاچین وغیرہ کے معاملات ایک طرف، مگر اگر بھارت کی تجارت سے بھارت کا پیسہ ہمیں مل رہا تو ہم اسے ٹھکرا کر ایران اور افغانستان کو دلوانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟

\"dc-Cover-th545cqvqujdkcfum82de66dp4-20160524082222.Medi\"

چین کے بھی بھارت سے سرحدی تنازعات ہیں، مگر وہ تو کھل کر بھارت سے تجارت کر رہا ہے، اور ہمیں بھی عرصہ دراز سے یہی مشورے دے رہا ہے کہ بھارت سے تجارت کرو۔ جب بھارت کی آدھی ایکسپورٹ پاکستان کے راستے سے جا رہی ہوں گی، تو اس سے ہمیں ٹرانزٹ فیس میں پیسہ ملنے کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہو گا کہ بھارت کی معیشت کا ایک اہم روٹ ہمارے قبضے میں ہو گا۔ دوسری طرف بھارت اپنی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے، پاکستان کے ان علاقوں میں امن کے قیام کے لیے ہماری مدد کرنے میں مجبور ہو گا جہاں وہ اس وقت جنگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے، اور جب بھی کشمیر یا دوسرے تنازعات پر مذاکرات ہوں گے تو ہماری بات کا وزن زیادہ ہو گا کہ بھارت کے مفادات اسی میں ہوں گے کہ پاکستان سے تعلقات اچھے رکھے جائیں۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں میں جنگ سے فتح نہیں ہو سکتی ہے، صرف باہمی تباہی ہی ہو گی اس لیے جنگوں سے تنازعات حل ہونے کا امکان صفر ہو چکا ہے۔

سو دکھی ہو کر مکیش کی مانند یہ الاپ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ ’دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا‘، بہتر ہے کہ اب ہم جذبات کو ایک طرف رکھیں اور وہی کریں جو کہ چین، سعودی عرب، امارات اور ایران کر رہے ہیں۔ معیشت کو اولیت دیں اور جذبات کو ایک طرف رکھیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments