مولانا زاہد الراشدی کے سر ظفراللہ خان پر ناروا الزامات


حکومت پاکستان کی طرف سے جناب عاطف میاں کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں بطور ممبر تقرری سے ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ عاطف میاں صاحب احمدی ہیں لہذا ہر کس و ناکس اپنی اپنی بساط کے مطابق احمدیوں کو پاکستان کا دشمن اور غدار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی اس پر ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ‘قادیانیوں کی پاکستان کے لیے ”خدمات”، اور کسی روزنامہ اسلام کی 4 ستمبر کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب جناب عمار خان ناصر کے والد گرامی ہیں، اور جناب عمار خان ناصر صاحب کی وجہ سے ہی یہ حسن ظن رہتا ہے کہ والد محترم کا تحقیق کا معیار بھی وہی ہوگا جو لائق فرزند کا ہے مگر وائے قسمت کہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ہمیں نہایت افسوس ہے کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنے مضمون میں تاریخ کی مسلمہ حقیقتوں کو پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس حوالے سے ہمارا حسن ظن نہ ہونے کے برابر ہے کہ انہوں نے ان معاملات پر کوئی تحقیق و تفتیش کی ہوگی کیونکہ ان کی تحریر کا اسلوب اسی عمومی تعصب کا شکار ہے جو کہ علماء میں نظر آتا ہے، اور اسی لئے ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان کو اصل حقائق سے روشناس کریں۔

مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ بات مسلمان یا غیر مسلم کی نہیں بلکہ متعلقہ گروہ اور فرد کے طرز عمل کی ہے، وزیر خارجہ ظفراللہ خان صاحب کی برطرفی کا مطالبہ فوری نہیں کیا گیا تھا بلکہ پانچ سال بعد کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں مولانا کو سر ظفراللہ خان صاحب کے کون سے طرز عمل پر اعتراض پیدا ہوا ہے کہ احرار کی شورش کا الزام مولانا نے سر ظفراللہ صاحب کو ہی دے دیا ہے۔ سر ظفراللہ خان صاحب کا بطور وزیر خارجہ طرز عمل تو سراسر پاکستان اور امت مسلمہ کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والا تھا۔ مولانا، شائد آپ نے سر ظفراللہ خان صاحب کی بطور وزیر خارجہ پاکستان جنرل اسمبلی میں تقاریر نہیں پڑھیں ورنہ آپ کم از کم طرز عمل کا اعتراض نہ کرتے۔ کیونکہ آپ نے اس خاص طرز عمل کا کوئی حوالہ نہیں دیا اسی لیے ہم آپ سے صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ سر ظفراللہ خان صاحب کی کشمیر پر، فلسطین پر، مراکش پر، لیبیا پر، تیونس پر، الجزائر پر کی گئی تقاریر کا ریکارڈ منگوا کر کبھی پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیں۔ قائداعظم سر ظفراللہ خان صاحب کی تعریف کرتے رہے ، پاکستان کے سیاسی لیڈران سر ظفراللہ خان صاحب کی خدمات کے متعرف رہے، اردن کے شاہ حسین نے سر ظفراللہ خان صاحب کو الکوکب الاردنی عطا کیا، اور باقی عرب ممالک نے بھی اپنے ملکوں کے سول ایوارڈز سے نوازا۔ مولانا، وہ لوگ احسان فراموش نہیں تھے اسی لیے سر ظفراللہ خان صاحب کو ان کے خاص طرز عمل کی وجہ سے محبتوں سے نواز رہے تھے۔ مولانا، شاید آپ کی نظر سے تو نہ گزرا ہو مگر سر ظفراللہ خان صاحب کی وفات پر ضیاء الحق جیسے دشمن احمدیت نے بھی سر ظفراللہ صاحب کی پاکستان کے لیے خدمات کو سراہا تھا، شائد ان کے پاس وہ ‘حقائق’ نہ پہنچے ہوں جو آپ پر الہام کئے گئے ہیں۔

مولانا صاحب، یہ برطرفی والا مطالبہ احرار کی پھیلائی ہوئی شورش تھی جس پر سب نے متفقہ طور پر اپنا اپنا حصہ ڈالا مگر اس کا صرف اس طرز عمل سے تعلق ہے جو احرار نے احمدیت کے مقابلے میں اپنایا ہوا تھا۔ تفصیل کے لیے جسٹس منیر کی انکوائری کمیشن رپورٹ ہی ملاحظہ کر لیں جس کا حوالہ کسی اور معاملے میں آپ نے دیا ہے۔

آگے مولانا صاحب سر ظفراللہ خان صاحب پر غلط الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘چودھری ظفراللہ خان کا یہ کردار اس سے قبل ریکارڈ پر آ چکا تھا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی تقسیم کی حدود طے کرنے والے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کی نمائندگی کی، مگر ضلع گورداسپور کے حوالہ سے جہاں قادیانیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی، ان کا کیس مسلم لیگ کے مؤقف سے ہٹ کر الگ پیش کیا، جس سے یہ غیر مسلم اقلیت کا ضلع قرار پا کر بھارت میں شامل ہو گیا اور اسی سے ہندوستان کو کشمیر میں دخل اندازی کا راستہ ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت ہے کہ قادیانیوں کا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کیا جائے، اس لیے وہ ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ ‘

ہم نے مولانا کے ہی الفاظ لکھ دیے ہیں تاکہ ہم یہ دکھا سکیں کہ احسان فراموشی کو اگر لفظوں میں دیکھنا ہو تو وہ الفاظ کیسے دکھتے ہیں۔ مولانا صاحب، یہ کون سا ریکارڈ ہے جہاں پر یہ کردار آیا تھا؟ یہ ریکارڈ لائبریریوں میں بھی موجود ہے یا صرف کسی متعصب کے ذہن کی اختراع ہے؟ مولانا باؤنڈری کمیشن کی ساری کارروائی چھپی ہوئی موجود ہے، خدارا پڑھ کر ہم جیسے عامیوں کو بتائیں کہ کہاں سر ظفراللہ خان صاحب نے گورداسپور کے حوالے سے کوئی ایسا کردار دکھایا کہ گورداسپور بھارت میں شامل ہوگیا؟ شائد آپ کو بھی نہیں پتا چلا کہ آپ نے دو باتوں کو مکس کر دیا ہے۔ باؤنڈری کمیشن میں تو سر ظفراللہ خان صاحب ہی مسلم لیگ کے وکیل تھے اور آپ نے گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کے ہی دلائل دیے تھے جس میں ایک دلیل احمدیوں کا مسلمان ہونا تھی، مگر جماعت احمدیہ نے جو علیحدہ میمورینڈم جمع کرایا تھا اس میں جماعت کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب تھے اور اس میمورینڈم میں بھی جماعت احمدیہ کو مسلمان ظاہر کر کے ہی پاکستان میں شامل ہونے کا ذکر تھا۔ 1983 میں ایک کتاب چھپی تھی The Partition of the Punjab, 1947: A compilation of Official Documents اس کتاب میں باؤنڈری کمیشن کی کاروائی مکمل طور پر موجود ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس کے متعلقہ حصوں کو پڑھ لیں تاکہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ اب آپ پر فرض ہے کہ آپ اصل کارروائی دیکھ کر ہمیں بتائیں کہ سر ظفراللہ خان صاحب نے گورداسپور پر کون سا مؤقف مسلم لیگ سے ہٹ کر دیا تھا جس کی وجہ سے گورداسپور بھارت کے پاس چلا گیا۔ کیا ہم آپ سے امید رکھیں کہ آپ اصل کارروائی دیکھنے کے بعد اپنے غلط مؤقف سے رجوع کریں گے؟ دیدہ و باید

یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ مولانا صاحب کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ اگر جماعت احمدیہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھ کر پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہتی تھی اور اگر سر ظفراللہ خان صاحب نے بھی باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہی کہاتھا تو جماعت احمدیہ کو الگ سے میمورینڈم دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اول تو یہ دیکھنا چاہئے کہ میمورینڈم میں کہا کیا گیا تھا، نہ یہ کہ ستر سال بعد ہم یہ دیکھتے رہیں کہ ضرورت تھی کہ نہیں تھی۔ مگر ہم ضرورت بھی بتائے دیتے ہیں۔ سکھ کیونکہ الگ سے ایک میمورینڈم جمع کرا رہے تھے اور اس میں ننکانہ صاحب کی وجہ سے شیخوپورہ پر بھی دعوی رکھتے تھے اسی وجہ سے مسلم لیگ نے باہمی مشاورت سے جماعت احمدیہ کو الگ سے بھی میمورینڈم جمع کرانے کا کہا تاکہ مسلم لیگ کی تائید ہو سکے۔ اور صرف جماعت احمدیہ کو ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ بٹالہ نے بھی ایک الگ میمورینڈم جمع کروایا تھا جس میں احمدیوں کو مسلمان ظاہر کر کے قادیان کو ایک مذہبی مقام اور زیارت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کی تائید میں جماعت احمدیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے میمورینڈم جمع کرائے گئے تھے جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ لدھیانہ، انجمن مغلیاں لوہاراں، ترکھاناں8 پنجاب، مسلم راجپوت ایسوسی ایشن، انجمن مدرسہ البنات جالندھر، سٹی مسلم لیگ منٹگمری وغیرہ شامل تھے۔

جس جسٹس منیر کی رپورٹ کا آپ نے ذکر کیا ہے اسی رپورٹ میں باؤنڈری کمیشن پر جسٹس منیر لکھتے ہیں:

Vile and unfounded charges have been levelled against the Ahmadis that the district of Gurdaspur was assigned to India by the Award of the Boundary Commission because of the attitude adopted by the Ahmadis and the arguments addressed by Chaudhri Zafrullah Khan who had been selected by the Quaid-i-Azam to present the case of the Muslim League before that Commission. But the President of this Court, who was a Member of that Commission, considers it his duty to record his gratitude to Chaudhri Zafrullah Khan for the valiant fight he put up for Gurdaspur. This is apparent from the record of the Boundary Commission which anyone who is interested may see. For the selfless services rendered by him to the Muslim community, it is shameless ingratitude for anyone to refer to Chaudhri Zafrullah Khan in the manner in which he has been referred to by certain parties before the Court of Inquiry. (Report of the Court of Inquiry 1954, page 197, Printed by the Supreintendent, Govt Printing, Punjab)

مولانا کو شائد خود بھی اپنی بات کے اندرونی تضاد کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے لکھتے ہیں کہ ‘اس کے باوجود انہیں وزیر خارجہ کے طور پر کافی عرصہ برداشت کیا گیا ‘۔ مولانا، عرض یہ ہے کہ آپ کے نزدیک سر ظفراللہ خان صاحب نے قائداعظم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور مسلمانوں کے کیس کو گورداسپور کے معاملے میں خراب کیا اور آپ کے نزدیک یہ ریکارڈ کا حصہ ہے مگر پھر بھی قائداعظم نے سر ظفراللہ خان صاحب کو وزیر خارجہ جیسی حساس نوعیت کی وزارت دے دی۔ آپ خود سوچیں کہ کیا یہ ماننے والی بات ہے؟ قائداعظم کا سر ظفراللہ خان صاحب کو باؤنڈری کمیشن کے بعد معرض وجود میں آئی نئی مملکت پاکستان کا وزیرخارجہ بنانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ قائداعظم کے نزدیک سر ظفراللہ خان صاحب نے اپنا کام خوب انجام دیا تھا۔

اوپر مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو تاریخی معاملات مکمل طور پر تحریر میں موجود ہیں مولانا نے ان کا ذکر کرنے میں کس قدر تاریخی اغلاط کی ہیں تو ایم ایم احمد اور کسی منصور احمد کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ تو ویسے ہی ہوائی فائر ہیں جن کا جواب دینا ضروری نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).