جمہوریت کا حرام ہوتا دنبہ


کوئی بہت مبارک گھڑی تھی۔ دماغ کی بتی جل اٹھی۔ پنڈی والوں کو اچانک پچاس سال پرانا لطیفہ سمجھ آ گیا۔ وہی لطیفہ جس کی پنچ لائین ہے کہ جب گھر بیٹھے عزت کی روٹی مل رہی ہے تو فلموں میں کام کرنے کی کیا ضروت ہے۔ وطن عزیز میں اب جمہوریت بحال ہے۔ پنڈی والے پنڈی ہی بیٹھے ہیں۔ مارشل لا سے پرہیز نہیں تو گریز کرتے ہیں۔ البتہ اپنی جگہ بیٹھے ہی یرکائی رکھتے ہیں اس نمانی جمہوریت کو۔

اب یہ کیسی جمہوریت ہے۔ یہ ایسی جمہوریت ہے کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔ ایک قصہ سنیں۔

ایک تھا بادشاہ۔ وہ اپنے پنڈی سے تنگ تھا۔ جو اصل میں ایک وزیر تھا۔ سیانا بھی تھا، فوج پر بھی کنٹرول تھا اس کا۔ بادشاہ کو ذرا مزہ نہیں آ رہا تھا اپنی حکومت کا۔ اس کی واحد وجہ وہ منحوس عقل مند وزیر ہی تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ اس پنڈی نما وزیر سے جان چھڑائی جائے۔ یہ تو سوچ لیا پر کرے کیسے۔

 بادشاہ کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا چاہتا تھا کہ وزیر کی عقل کا بھی پول کھل جائے اور اس سے جان بھی چھوٹ جائے۔ بادشاہ نے بھرے دربار میں وزیر کو بلایا۔ اسے کہا کہ یہ لو دنبہ تمھارا ہوا۔ اس شاہی دنبے کو روزانہ پستے بادام اخروت کشمش کھلانی ہے۔ دودھ بھی پلانا ہے۔ یہ سب کچھ کھا کر بھی اگر دنبے کا وزن آدھا پاؤ بڑھ گیا تو اے وزیر تمھاری گردن مار دی جائے گی۔

وزیر نے بادشاہ کو دل میں ایک لمبی سی ٹوں ٹوں کی۔ دنبہ لے کر چلا گیا۔ بادشاہ نے وزیر کو مہینے دس دن کا ٹائم دیا تھا۔ وہ مطمئین تھا کہ وزیر جب موٹا تازہ دنبہ واپس لاوے گا تو اس کی گردن ماری جائے گی۔ بادشاہ کو اس وزیر کی منحوس صورت نہیں دیکھنی پڑے گی دوبارہ۔

اپنے مقررہ وقت پر وزیر دنبہ لے کر واپس پہنچا۔ دنبہ جیسا گیا تھا ویسا ہی واپس آیا تھا۔ ذرا موٹا نہیں ہوا تھا۔ بادشاہ کی غم غصے سے آنکھیں باہر آ گئیں۔ وزیر سے بولا کہ تم نے اسے پستے بادام اخروٹ وغیرہ کھلائے تھے۔ وزیر نے کہا عالیجاہ سب کچھ کھلایا روزانہ چار ٹائیم۔ بادشاہ تو پھر یہ موٹا کیوں نہیں ہوا۔ وزیر بولا حضور اس دنبے کے ساتھ والے کھونٹے پر میں نے ایک شیر باندھ دیا تھا۔ اس شیر کی دھاڑیں اس کا لہو سکھائے رکھتی تھیں۔ اس نے خاک موٹا ہونا تھا۔

حضور بھاگ لگے رہن آپ کی بادشاہی کو۔ ہمیں جمہوریت عطا کی ہم آپ کے گیت گاتے ہیں۔ اس جمہوری دنبے کو شیر کے ساتھ مستقل باندھ رکھا ہے۔ یہ کمبخت خود تو پستے اخروٹ بادام کھائی جا رہے ہیں۔ ہمارا کوئی کام کر کے دیتے نہیں، کیونکہ انہیں اس قابل چھوڑا ہی نہیں گیا کبھی۔

پی پی حکومت کے دنبے پر چیف اور ان کے جانثار شیر ہی سواری کرتے رہے۔ نوازشریف حکومت کو کبھی دھرنے لے ڈوبے کبھی ان کے اپنے کرتوت۔ جو بڑی محنت سے پھر بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے۔ کوئی گلہ شکوہ ہمیں نہیں ہے۔ وللہ ہرگز نہیں ہے۔ جس محنت سے ہماری جمہوری تربیت کی جا رہی اس پر کروڑوں گوبھیاں آپ کو دعائیں دیتی ہیں۔

پوچھنا صرف اتنا ہے کہ جب ہمارے جمہوری آپ لوگوں کے ساتھ کوئی ہاتھ کرتے ہیں تو پھر آپ کو کیسا لگتا ہے۔ پیار تو آتا ہو گا۔ دل تو کرتا ہو گا کہ ان جمہوری دنبوں کو چھری پھیر دی جائے۔ اختر منصور جنت مکانی ہوئے۔ ہماری ساری افغان پالیسی و قومی خود مختاری لڑھک کر دنیا کے سامنے آ گئی۔ ابھی خود نہ سنبھلے تھے کہ صورتحال کیا سنبھالتے سنبھالنے والے۔ برا ہو اس سول حکومت کا اس جمہوری دنبوں کا جنہوں نے اپنے ازکار رفتہ بڈھے بابے طارق فاطمی کے ذریعے میڈیا میں خبر چلوا دی۔

کہ یہ جو بلوچستان میں ایک کار جلی ہے نہ۔ اسے میزائیل لگا تھا۔ اس میں ایک تو ڈرائیور تھا بیچارہ۔ دوسرے امیر المومنین تھے۔

عرض یہ ہے کہ جمہوری دنبے کو کھلا چھوڑیں۔ اسے کام کاج کرنے دیں۔ شیر کے ساتھ اس کو باندھنا چھوڑ دیں۔ ورنہ اکتایا ہوا اپنی عادت سے مجبور۔ جب جب موقع ملے گا شیر کو بھی ایسی ٹکر مارے گا۔ کئی کئی سال درد محسوس ہوتا رہے گا۔

وقت آ گیا ہے کہ معاملات سیاستدانوں کے حوالےکیے جائیں۔ لوگ بھی انہی سے پوچھتے ہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بھی انہیں ہی بٹھا دیا جائے۔ وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔ بندوں سے ہی ڈیل کرنی ہے نہ۔ سیاستدانوں کو اس کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔

 May 25, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments