کیا اقلیتی نمائندے اسمبلیوں میں اپنی موجودگی کا احسا س دلا سکیں گے؟


اقلیتوں میں یہ سوال اب زیر بحث ہے کہ کیا موجودہ اسمبلیوں میں” سلیکٹ “ہو نے والے اقلیتی نمائندے کیا اپنی موجودگی کا احسا س دلا سکیں گے ؟کیا وہ اقلیتوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کروا سکیں گے ؟ کیا وہ اقلیتی کوٹے پر عملدرآمد کروا سکیں گے؟ کیا وہ مردم شماری میں اقلیتوں کی دُرست تعداد کے بارے میں معلوم کر سکیں گے ؟ کیا وہ تعلیمی کوٹے میں اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے عملی جدوجہد کر سکیں گے؟ بہر حال ان تمام سوالوں کا جواب تو جلد یا بدیر مل ہی جائیں گے فی الحال ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسیحی اقلیت کی نسبت ہندو مذہب کے امیدواروں نے زیادہ نشستیں حاصل کر کے اس تاثر کو دُرست ثابت کیا ہے کہ ہندو ملک کی بڑی اقلیت ہیں۔گو کہ مسیحی اقلیت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ پنجاب میں چونکہ زیادہ ہیں اور پنجاب چونکہ بڑا صوبہ ہے اس لئے مسیحی اقلیت کی تعداد زیادہ ہے لیکن وہ اپنی اس دلیل کو کبھی ثابت نہیں کر سکی اور موجود ہ الیکشن میں ایک مرتبہ پھر ہندو اقلیت بڑی اقلیت بن کر اُبھری ہے۔ سندھ میں ہندو نمائندوں کی پاکستان پیپلز پارٹی کی جنرل نشستوں پر جیت سے بھی یقینا جہاں اُن کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے وہاں دوسری جماعتوں سے یقینا یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے جنرل نشستوں پر اقلیتوں کو موقع کیوں نہیں دیا گیا؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان اقلیتی نمائندوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے یا نہیں۔ اقلیتوں کے مندرجہ بالا جو مطالبات ہیں اُن کو پورا کرنے کے لئے اقلیتی نمائندے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اقلیتوں کا دُرست آباد ی کے اعداد و شمار کو جاننے کا مطالبہ ایک اہم مطالبہ ہے جس پر تمام اقلیتوں کو یقینا ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک اقلیتوں کی دُرست تعداد کا علم نہیں ہو سکے گا تب تک اقلیتیں نہ تو کوٹے میں اضافے کا مطالبہ کر سکتی ہیں اور نہ ہی اسمبلیوں میں اقلیتی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔ اقلیتیں اپنی آبادی کے نہ بڑھنے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں کہ اقلیتوں کی آبادی کے بڑھنے کی شرح اکثریت سے کم کیوں ہے ؟
اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں یہ یقینا اقلیتی نمائندوں کے لئے کڑا امتحان ہو گا کیونکہ ملک بھر میں اکثر و بیشتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو یقینا اقلیتوں کے عدم تحفظ کا باعث بنتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم مسئلہ اقلیتی لڑکیوں کو زبردستی اغواء کر کے اُنہیں تبدیلی ِمذہب پر مجبور کرنا ہے ۔ سندھ اور پنجاب میں اس حوالے سے ماضی میں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر ایسی خبریں اور ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کا یہ مسئلہ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کیا موجودہ اقلیتی نمائندے اس مسئلے کے لئے خاطر خواہ انتظامات کر سکیں گے ۔
اقلیتی کوٹے کے حوالے سے خدشات دور ہونے چاہئیں کیونکہ ماضی میں اقلیتی کوٹہ سے عام اقلیتی افراد مستفید نہیں ہو سکے ، اس لئے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے جائیں۔ اس ضمن میں ہمیں پڑوسی ملک میں اقلیتی کوٹے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں اقلیتوں کو کوٹہ تین سطحوں پر ملتا ہے ۔ پہلا کوٹہ اسمبلیوں میں ، دوسرا کوٹہ ملازمتوں میں اور تیسرا تعلیمی اداروں میں ۔ ہمیں اُسی طرز کے کوٹے کا مطالبہ ہمارے ہاں بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ کوٹے کے ذریعے ملازمتوں کے حوالے سے تاحال جو پریکٹس کی جارہی ہے اُس میں اقلیتوں کو 80فیصد ملازمتیں صرف درجہ چہارم میں ہی دی جاتی ہیں جبکہ دیگر شعبوں میں اُن کی غیر موجودگی سے اقلیتی کوٹہ کی نشستیں پُر نہیں ہو سکتیں۔ اقلیتی نمائندوں کو اس ضمن میں خاص طور پر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوٹہ سسٹم سے صحیح معنوں میں کس طرح مستفید ہوا جا سکتا ہے ۔
ماضی میں مذمت دین کے واقعات میں جن اقلیتی افراد کو زیر حراست میں لیا گیا ہے وہ تاحال جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اس ضمن میں خاص طور پر سانحہ یوحنا آباد کے زیر حراست افراد کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں جہاں سابق حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا تا رہا وہاں سابقہ اقلیتی سیاسی نمائندوں کو عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑتا رہا کیونکہ اُن میں سے ایک سیاسی نمائندے کا تعلق غالباً یوحنا آباد سے ہی تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اقلیتی سیاسی نمائندے اس ضمن میں کیا کردار ادا کرتے ہیں اوراس طرح کے واقعات کی غلط پریکٹس کی روک تھام کے لئے کیا ممکنہ اقدامات کئے جا سکتے ہیں جس سے اقلیتوں کو یہ تاثر مل سکے کہ موجودہ حکومت کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی واقعتاً اقلیتوں کو تحفظ فراہم کر سکے گی۔ موجودہ حکومت کے لئے اقلیتوں کو تحفظ فراہم اس لئے بھی ضروری ہے کہ الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے اقلیتوں سے متعلق ریمارکس پر باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی اور جس کے لئے وزیر اعظم ،عمران خان صاحب کو خود کہنا پڑا کہ پی ٹی آئی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے خاص طور پر اقدامات کرے گی۔
اقلیتی نمائندوں کو خاص طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے جو کمیٹیاں بنائی جاتی ہے ماضی میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ اُن کمیٹیو ں میں اقلیتی نمائندگی کوجان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا یعنی جن کا مسئلہ ہے وہ اُس کمیٹی میں شامل ہی نہیں ہے جو اُن کے مسائل کو حل کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کر رہی ہے ۔ اس لئے اقلیتی نمائندوں کو خاص طور پر ایسی کمیٹیوں میں نہ صرف خود شامل ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اقلیتی عوام میں سے بھی کسی نمائندے کو اس میں شامل کروانے کے لئے کوشش کرنی کی ضرورت ہو گی ۔

سابقہ حکومت کے دور میں اقلیتوں کو اپنی کم مائیگی کا احسا س اُس وقت ضرور ہوتا رہا جب حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی سکیموں میں اقلیتوں کو در خور اعتناء سمجھا جاتا رہا ۔ اسی لئے وہ شاذ و نادر ہی ایسی کسی سکیم کا حصہ بن سکے اور اس میں بھی صرف وہی اقلیتی افراد شامل ہو سکے جو اقلیتی سیاسی نمائندوں کے زیادہ قریب رہے ۔ اسی وجہ سے عام اقلیتی عوام کی اقلیتی سیاسی رہنماؤں سے جڑت نہیں ہو سکی اور یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کی بڑی تعداد سابقہ اقلیتی سیاستدانوں کے نام جاننے سے بھی قاصر رہی ۔
مندرجہ بالا تمام اقدامات کرنا اقلیتی سیاسی نمائندوں اور اُن کی سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہو گی ۔ اقلیتی نمائندے چونکہ براہ راست نمائندے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اس لئے اُن کو اپنی قوم سے زیادہ سے زیادہ جڑت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کی پارٹی کو کل کو اقلیتی قوم کی حمایت درکار ہوتو اقلیتی سیاسی نمائندے اُن کے ساتھ ڈائیلاگ کر وا سکیں۔وہ اقلیتی عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکیں ۔ یہ مت خیال کریں کہ آئندہ کبھی الیکشن نہیں ہوں گے ۔ اس لئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں اور اپنی سیاسی پارٹی کو آمادہ کریں کہ وہ اقلیتی نمائندوں کی براہ راست نمائندگی کے لئے قانون سازی کرے تاکہ آئندہ الیکشن میں اقلیتیں صحیح معنوں میں قومی دھارے میں شامل ہو کر اسمبلیوں میں اپنی موجودگی کے احساس کو محسوس کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).