چائے پاپے والی سرکار چاہیے


 

وزیراعظم ہاؤس میں صرف چائے بسکوٹ (انگریزی والا بسکٹ) والی رسم کی ابتدا مذاق میں مت لیجیے.

یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے.

اس کے پیچھے 70 سالہ تاریخ کا اضطراب دبا ہے.

ٹیکنیکل، قانونی، آئینی، معاشی، ریاستی و سیاستی اور چین و ہند و امریکہ سمیت فارن پالیسی کے مسائل کا انبار ایک طرف رکھیے اور اس پر گفتگو ڈرائنگ رومز میں کیجیے اور اپنے منہ کا ذائقہ بنائیے.

ڈرائنگ روم سے باہر اس ملک کی اکثریت کو صبح نیند سے اٹھ کر ایک مگا چائے اور دو پاپے بھی مل جائیں تو بہت ہے.

یہ وہ اکثریت ہے جو ملک میں سہمی پڑی اقلیت سے بھی زیادہ بےوقعت ہے۔ اس اکثریت کے پاس پہلے بھی اپنا ردعمل دکھانے کے لیے گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں تھا، مگر اب اسکے ہاتھ میں سوشل میڈیا کی کلاشنکوف آگئی ہے، جسکے ذریعے اب گالیاں براہِ راست ٹھیک نشانے پر لگتی ہیں اور ان کا شکار جتنا تڑپتا ہے، اتنی ہی لذت لیتے ہیں یہ۔

اس چائے پاپے والی اکثریت کو کبھی کبھی یا اکثر چائے پاپے میں سے بھی کسی ایک چیز سے دستبردار ہونا ہی پڑتا ہے کہ یا چائے پیو یا سوکھے پاپے کھاؤ!

اوپر سے غضب یہ کہ چائے کی پتی، دودھ اور چینی بھی الگ الگ آپشن ہیں۔ پانی تو خیر گٹر جیسا ہی سہی مگر فی الحال میسر ہے۔

یہ اکثریت اس وقت خوشی سے نہال ہوجاتی ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ آج وزیراعظم ہاؤس سے فیصل جاوید خان جیسا وزیراعظم کا لاڈلہ تک ایک عدد بسکٹ تک کے لیے ترستا ہوا بھوک سے نڈھال نکلا ہے اور حامد میر کے سامنے اپنی بھوک کا دکھڑا رو رہا ہے۔

انہیں بھی بھوک پریشان کرتی ہے! واہ۔

یہ بھی ایک عدد بسکوٹ کے لیے ترستے ہیں! واہ بھئی واہ۔

یہ اکثریت اس وقت خوشی سے پھولے نہیں سماتی جب اسے سبز باغ کے طور پر ہی سہی، وزیراعظم بتاتا ہے کہ تنگ و تاریک مکانوں میں رہنے والے غریبو!

ان شاہی محلوں کو مسمار کردوں گا جہاں سے تمہارا گزر ممکن نہ ہو!

جن سڑکوں پر سے گزرتی ہوں شاہی سواریاں، ان سڑکوں پر تمہارا راج ہوگا اور شاہی سواریاں راکھ کردوں گا میں!

یہ عمارات، یہ فصیلیں، یہ حصار اور مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں ۔۔۔۔۔ سینۂ دہر کے ناسور ہیں یہ ناسور ۔۔۔۔۔جذب ہے ان میں تمہارے اجداد کا خوں ۔۔۔۔ ان شہنشاہوں نے دولت کا سہارا لے کر۔۔۔۔تم غریبوں کی غربت کا اڑایا ہے مذاق ۔۔۔۔ وعدہ رہا غریبو! ۔۔۔۔ میں ان شہنشاہوں کو مذاق بنا کر رکھ دوں گا۔

اس مذاق نے قبر برابر کی کوٹھڑیوں میں گرمی سے جھلستی، چائے پاپے کے لیے بھی ترستی، کولہو کے بیل کی طرح زندگی کی چھکڑا گاڑی کو کھینچتی اکثریت کو جو لذت بھرے قہقہے دیے ہیں، ان کی گونج اب چہارسوُ سنائی دے رہی ہے۔

ہاہاہاہا۔۔۔ میاں صاحب جیل میں پڑے ہیں! امید ہے کہ گرمی کا مزہ چکھ رہے ہوں گے ہماری طرح!

ہاہاہاہا ۔۔۔۔ مریم نواز جیل کی چائے میں باسی پاپے ڈبو رہی ہوں گی اور ہماری طرح زمین پر سوتی ہوں گی!

(اب چاہے ایسا نہ ہو، مگر اس خیال سے ملنے والی لذت کا ذائقہ تو حلق تر کررہا ہے نا!)

اور پھر سونے پر سہاگہ!

زرداری صاحب جیسے سب پر بھاری بھی عدالت میں کھینچے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ واہ جی واہ ۔۔۔۔ اب آئے گا کھیل کا مزہ!

پھر شرجیل پر چھاپے نے تو بن پیے نشہ سر پر چڑھا دیا ہے!

ہیرو نے کیا دبنگ اینٹری ماری ہے ہسپتال میں!

نائیک نہیں ۔۔۔۔ کھَل نائیک ہوں میں ۔۔۔۔ ظلمی بڑا دکھدائیک ہوں میں! (ہاہاہاہا)

اوپر سے وزیراعظم گوروں کو زرا بھی گھاس نہیں ڈالتے، جن کے سامنے پاکستانی حکمرانوں کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے!

سب امریکیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔

ایک یہ دبنگ وزیراعظم ہے جو اقوام متحدہ تک کی پرواہ نہیں کرتا!

واہ واہ ۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں نیا پاکستان!

پر سچ پوچھیے تو یہ مذاق نہیں ہے۔

یہ سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہے۔

عمران خان یہ فلمی انقلاب برپا کریں یا نہ کریں۔ ویسے بھی عقلمندوں کو معلوم ہے کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا مگر یہ سبز باغ ان شاہانہ مناظر نے آباد کیا ہے جو ہمارے سیاسی و ریاستی حکمرانوں نے پچھلے ستر برسوں میں پیش کیے ہیں۔

سڑکوں پر پروٹوکول کے ساتھ جن کی دندناتی، چمچماتی دیوہیکل گاڑیاں سڑک کنارے دم سادھے راستہ کھلنے کا انتظار کرتے عوام کے دلوں میں نفرت اور نظروں میں حقارت ہی نہیں بھرتی رہیں، سمجھو ان کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے گزرتی رہی ہیں۔

غیرفطری شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ نے چائے پاپے کے ذائقے تک میں نہ صرف زهر گھول دیا ہے بلکہ لاکھ قسمیں کھاؤ اور قانونی طور پر اپنی ایمانداری ثابت کرو، مگر یہ تمام شاہانہ مناظر کرپشن کا ثبوت اور عوام اس کا عینی شاہد بن جاتا ہے۔

سیاسی اور ریاستی حکمرانوں اور ان کے خاندانوں اور ان کے احباب اور خوشامدیوں کے اللے تللے اور اپنی سہولت کے لیے ان کے ہاتھوں ہر طرح کی قانون شکنی، پولیس کے غلامانہ کردار، اسٹار لکی سرکس جیسے انصاف و قانون نے چائے پاپے والی اکثریت کو کوہِ آتش فشاں بنا دیا ہے اب، جو لاوے کی صورت اب پھوٹ پڑا ہے۔

فطری طبقاتی فرق انسان برداشت کر لیتا ہے۔

مگر تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں حکمرانوں کی عیاشیوں پر ناراض عوام کی ٹھوکروں میں بڑے سے بڑی شہنشاہیت روندے جانے کے واقعات سے۔ تاج اچھالنا اور تخت گرانا انسانوں کے اندر رکھی فطری تمنا ہے جو فطری یا جبری انقلاب کا سبب بن جاتی ہے۔ ماضی و حال کی تاریخ میں عیاشیاں کرتے شہنشاہوں اور ان کے خاندانوں کے جسم و جاں تک عوام کی ٹھوکروں میں رُلتے دیکھے گئے ہیں۔

گو کہ انقلاب یا تبدیلی ایک سبز باغ رومانس کا نام ہے جس کا انجام وصل کم، ہجر زیادہ ہوتا ہے۔ مگر عوام کا غصّہ اور نفرت ایک تلخ حقیقت ہوتی ہے جس سے نگاہ چرانے والے احمقوں کے سبز باغ میں رہتے ہیں اور جس کا ناجائز فائدہ لینے والے آج نہیں تو کل کے لیے آ بیل مجھے مار کی دعوت کا انتظام کرتے ہیں۔ یا پھر اس کا فائدہ بیرونی طاقتیں لیتی ہیں جو باوردی حکمران تک کو روند کر گزرتی ہیں اور عوام غیرملکیوں سے بغلگیر ہوکر جشن مناتے ہیں۔

اس غصّے اور نفرت کا علاج فقط خود کو عام آدمی کی قطار میں کھڑا کرنا ہے۔

ورنہ یہ لاوا بے قابو ہوکر بہت کچھ اپنی ٹھوکروں میں روندتا ہوا کسی ایسی سمت میں نکل جائے گا جہاں سے خود اپنی بھی خبر کسی کو نہ آئے گی۔

عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ کے طاقتوروں اور وقت کے تمام محمودوں کو ایازوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہوگا ورنہ آج جو نوچ کھسوٹ کا منظر سوشل میڈیا پر ہے وہ سڑکوں پر اتر آئے گا اور شاہانہ پروٹوکول پر پتھراؤ ہو رہا ہو گا۔

اور پھر نہ کوئی بندہ رہے گا اور نہ بندہ نواز!

 

 

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah