یہ ملک ہے مسجد نہیں۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر شخص کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ آپ موٹر بائیک پر پریشر ہارن لگا کر سڑکوں پر شور مجائیں۔ کسی کو راستہ نہ دیں۔ اپنی گاڑی ایسی جگہ پارک کردیں کہ جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل ہو۔ اپنی شادیوں اور دیگر خوشیوں کی تقاریب میں اندھا دھند فائرنگ اور شور شرابا کریں۔ مساجد اور مذہبی تقاریب پر لاوڈ اسپیکر سے پورے محلے یا علاقے کو اپنا بیان اور پوری تقریب زبردستی سنا دیں۔ پوری سڑک اپنی تقریب کے لئے شامیانہ لگا کر بند کردیں۔ غرض وہ تمام حرکتیں اور اعمال کہ جس سے دوسرے لوگ متاثر ہوا کرتے ہیں کی ہمارے ملک میں مکمل آزادی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ لیکن وہ عمل کہ جس سے کسی کی ذات کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ انسان کا عقیدہ ہے لیکن اس بات سے کہ جس سے کسی کو براہ راست کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے ملک کے لوگوں کو سب سے زیادہ فرق اسی بات سے پڑتا ہے۔
کون اپنے عقیدے میں کتنا مسلمان ہے اور کتنا کافر؟ اس کا فیصلہ ہم اس خدا پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ جس نے اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں کو خود پیدا فرمایا اور ہدایت بھی وہ دینے والا ہے۔ جنت اور جہنم کا فیصلہ بھی وہی کرنے والا ہے۔ غلطیاں، کوتاہیاں اور گناہ بھی وہی بخشنے والا ہے۔ ہمیں تو اس نے کسی پر نہ منصف بنا کر بھیجا ہے نہ وکیل۔ اس نے جن لوگوں کو نبی بنا کر بھیجا ان کا بھی کام صرف اتنا تھا کہ خدا کا پیغام لوگوں کو سنادیں۔ انہیں اچھا اور برا بتادیں۔ غلط اور صحیح کی تمیز سکھادیں۔ پھر اس کے بعد خدا جانے اور اس کے بندے۔ ان باتوں سے ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اسلام جنہیں کافر کہتا ہے نعوذ باللہ میں انہیں مسلمان کا درجہ دینے لگا ہوں۔ لیکن مجھے کسی نے یہ اختیار نہیں دیا کہ میں کسی کے عقیدے کی بنا پر اس سے نفرت کرنے لگوں یا اس سے جینے کا حق چھین لوں۔ زندگی اور موت اللہ دینے والا ہے اسے لا شریک ماننے والے بھی دنیا میں موجود ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرنے والے بھی۔ اسے ماننے والے بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ اس ذات پاک نے ان سے جینے کا حق نہیں چھینا نہ ان پر رزق کے دروازے بند کئے۔ اسی طرح اللہ کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں کے ماننے والے اور نہ ماننے والے بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اللہ پاک نے کبھی کسی منکر پر نہ زندگی کا در بند کیا نہ رزق کا۔ اگر اللہ تبارک و تعالی کو جنگ و جدل اور قتل و غارت اس قدر پسند ہوتا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے بجائے ایک جلاد بھیج دیتا جو اسے مانتا زندہ رہتا ورنہ جہنم میں پہنچا دیا جاتا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات مبارک اور ان کو خاتم النبین مانے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلایا جا سکتا یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن کیا ان کو خاتم النبین نہ ماننے والا کیا انسان بھی نہیں رہتا؟ یہ ایک سوال ہے۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کا مطالعہ فرمالیں کہ انہوں نے کبھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی رحم دلی، ایثار، محبت، صبر و برداشت پر مبنی تھی۔ آپ ﷺ نے تو کبھی ان سے نفرت نہیں کی جو انہیں نہیں مانتے تھے بلکہ آپ ﷺ کی پوری کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ اپنے اخلاق سے انہیں اپنا گرویدہ بنائیں اور یہی ہوا۔ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ میرے آقا ﷺ کے کردار سے پھیلا۔
قادیانی غیر مسلم ہیں تو کیا صرف قادیانی غیر مسلم ہیں؟ باقی اور مذاہب کے پیروکار کیا اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ان سب مذاہب کے پیروکاروں کو سرکاری عہدوں سے الگ کردیا جائے؟ تو پھر اقلیتی برادری کس طرح اس ملک میں رہ پائے گی؟ اس ملک کے بانی قائد اعظم نے اقلیتوں کے بارے میں جو فرمایا تھا کیا ہم بھول گئے کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اور کسی بھی قسم کا حکم لگانے سے پہلے یہ تو سوچ لینا چاہئیے کہ ایک غیر مسلم جو کسی کو نہ قتل کرتا ہے اور نہ پریشان تو اس کے عقیدے سے انسانوں کو براہ راست کیا نقصان پہنچتا ہے؟ اور اگر کوئی مسلمان کسی کی آبروریزی کرکے اسے قتل بھی کردیتا ہے تو کس کے لئے کیا حکم درکار ہوگا یہ حکم لگانے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔
خدا کے واسطے یہ ملک ہے کوئی مسجد نہیں ہے کہ غیر مسلم کا داخلہ ہی منع ہو۔ یہ ایک وطن ہے جہاں ہر انسان اپنے عقیدے کے مطابق جینے کا، رہنے کا، نوکری کرنے کا، روزگار کرنے کا غرض ہر انسانی تقاضے کو پورا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس سے یہ حق نہ چھینا جائے۔ اگر کوئی مسلمان ڈرائیور متقی پرہیز گار ہے مگر ڈرائیونگ میں طاق نہیں ہے اور ایک غیر مسلم ڈرائیور جو اپنی مہارت پر عبور رکھتا ہے تو مسلمان کی پرہیزگاری اسے دنیاوی منزل تک نہیں پہنچا سکتی لیکن ایک غیر مسلم اپنی مہارت سے ضرور منزل تک پہنجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ میاں عاطف کے عقیدے سے مملکت کو نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان لیکن اس کی مہارت سے ضرور فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی ہزاروں اشیا بھی تو غیر مسلموں کی بنائی ہوئی استعمال کرتے ہی ہیں تو ایک غیر مسلم کی مہارت اگر ہمارے وطن کے کام آسکتی ہے تو ہمیں اس کی مہارت اور قابلیت سے ہی سروکار رکھنا چاہئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).