سرمہ ہے ميری آنکھ کا خاک مدينہ و نجف


مسجد قبا اور جبل احد کی زیارت کو نکلے تو جو ٹیکسی ملی اس کا ڈرایور عرب تھا چناچہ کم زبان سے اور زیادہ اشاروں سے بولتا تھا۔ مسجد قبا کے آس پاس زائرین ،بسوں اور ٹیکسیوں کے ساتھ کبوتروں کا بے تحاشا ہجوم تھا۔اتنے ہجوم میں بھی نوافل پڑھنے کی جگہ ہمیں مل گئی جو ہم نے باہر ہی ایک بچھی دری پر پڑھے۔ ۔ابوظہبی میں ٹیکسی میٹر پر چلتی ہے اور انتظار کروانے کے بھی پیسے کٹ جاتے ہیں مگر سعودیہ کی ٹیکسی شاید میٹر پر نہیں چلتی پھر بھی ہمیں عادت سے مجبور اسکے منتظر ہونے کی بھی فکر تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے ان زیارتوں کے بارے میں ہمارا علم بہت ہی بنیادی اور سرسری تھا۔کوی بھی ایسا تفصیلی علم ہمارے پاس نہ تھا جو ہمارے جذبات میں جوار بھاٹا اٹھا سکے۔یہاں ہم بھی ہاتھوں میں کچی گولیاں ہی لئے آے تھے بس یونہی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لئے۔چناچہ اپنی اس بدقسمتی پر شرمندہ ہوتے ہم نے بس بنیادی سی حاضری پوری کی، دیواروں کو ہاتھ لگا کر دیکھا،ذرا سا اندر جھانک کر دیکھا ، کبوتروں سے کچھ دیر خوش کلامی کی اور کچھ کم وقت ہونے کی بنا پر جنتی جبل احد کی طرف روانہ ہوے۔مسجد قبا کی نسبت جبل احد کا فاصلہ کچھ ذیادہ ہے کہ یہ مسجد نبوی سے تقریبا دوسری سمت واقع ہے۔بہت اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچ جبل احد اک چھوٹی سی پہاڑی معلوم ہوتا ہے۔اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صدیوں سے ہوتی اسکے اردگرد کی تعمیر یا سڑکوں کی قطاروں نے آس پاس کی زمیں کی اونچائ میں اضافہ کر دیا ہو۔ شہداء احد کے سرہانے کھڑے فاتحہ پڑھتے اور جبل احد پر چڑھ کر ادھر ادھر جھانکتے ایک شے کا بہت شدت سے احساس ہوا کہ کاش کوی گائیڈ، کوی یہاں کا قدیم رہائشی واقف کار یا عزیز ساتھ ہوتا جو ہمیں ہاتھ ہلا ہلا اور انگلی سے اشارے کر کر کے بتاتا کہ یہ پہاڑی۔۔۔مدینہ کی فوج اس طرف۔۔مکہ کی اس طرف وغیرہ وغیرہ۔یقینا بہت سے مقامی لوگوں کے پاس ایسا کثیر علم ہو گا جو اس وقت یقینا ہمارے پاس نہ تھا اور ہم محض اپنے محدود سرسری علم کے سہارے ادھر ادھر جھانکتے تھے اور کچھ سمجھنے یا اخذ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔بورڈز وغیرہ بھی پڑھے مگر سوائے کچھ ضروری ہدایات کے علم میں کچھ خاص اضافہ نہ ہوا۔کسی گائیڈ نے بھی ہمارا راستہ روک کر اپنی خدمات پیش نہ کئیں۔غالبا توقع کی جاتی ہے کہ گھر سے چلتے ہر زائر اپنا مطلوبہ علم ساتھ لیکر آے۔تو بیچ بیچ میں کہیں ہم جیسے نکمے بھی پہنچ جاتے ہیں جنکو الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا مگر گناہ بخشوانے جا پہنچتے ہیں توسب زائرین کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی ایک بار اس چوٹی پر چڑھ کر ادھر ادھر دیکھا ۔ہم ناکارہ ناہنجار لوگوں کی ساری عقیدت اور علم مسجد نبوی اور روضہ پاک تک ہی تھا اسکے آگے ہم گونگے بہرے اور اندھے ہوے چلے جاتے تھے۔اپریل کے آخری ایام میں مدینہ کے گیارہ بارہ بجے کے قریب دھوپ خاصی سخت تھی اور سن ہیٹ ،چھتری یا سن گلاسز کی خاصی ضرورت تھی جو اچھی ماں کی طرح میں نے بچوں کو تو خوب پہنا رکھے تھے اور خود اپنا دھوپ سے بچاو کا سب سامان کمرے میں ہی بھول آئی تھی۔تو اب مائیگرین کی بری عادت کا شکار سر لپٹیں پھینکنے لگا تھا چناچہ یہ زیارت بھی ضروری مشق کی طرح ادا کی اور فرض سے فیض یاب ہو کر ہوٹل کی طرف پلٹے۔

مدینے میں ہمارے قیام کا انتہائی محدود وقت آخری مراحل میں تھا مگر اب تک ایک زیارت ادھوری تھی جو تھی جنت البقیع کی۔ شومئی تقدیر ہم میاں بیوی دونوں کے ذہن سے جنت البقیع کا لفظ غائب تھا اور ہم ٹیکسی والے سے ریاض الجنہ کا استفسار کرتے تھے جسکے جواب میں اس نے کہا۔”مسجد نبوی اور ریاض الجنہ ۔۔۔سیم سیم”۔اس وقت تک ہم ریاض الجنتہ کی اصل حقیقت سے بھی ناواقف تھے۔ سو ہماری تاکید پر وہ ہمیں مسجد نبوی کی دوسری سمت اتار کر چلا گیا۔ اس نکڑ سے مسجد میں اندر کی طرف داخل ہوئے تو صحن کے بالکل سامنے سورج کی کھلی روشنی میں سبز گنبد اپنی پوری رعنائی سے جگمگا رہا تھا۔اس نظارے کی نہ مجھے توقع تھی نہ امید کہ صبح میں حسب توفیق سبز گنبد کی ایک تصویر لینے کی خاطر کافی دائیں بائیں گھومتی رہی تھی مگر شاید بالکل مخالف سمت میں ہونے کی وجہ سے ناکام رہی تھی۔اب جو ایک دم سبز گنبد اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ سامنے آیا تو اسے جی بھر دیکھنے کی اور کیمرے میں کچھ مناظر سمیٹ لینے کی مراد تکمیل کو پہنچی۔کچھ گھڑیاں اس صحن میں گزار کر گنبد خضرا کو تھوڑی سی دیر میں بہت سارا دیکھ کر ہم پھر سے ریاض الجنہ (یعنی دراصل جنت البقیع ،جسکا نام ہم بھول بیٹھے تھے) کی تلاشں میں نکلے۔ مسجد کے سامنے واقع ایک اونچی دیوار کے گرد گھومتے جنت البقیع تلاشتے رہےکہ ایک شک سا تھا کہ یہ ہی جگہ ہو سکتی ہےمگر اسکے دروازے تک نہ پہنچ سکے کہ تھکاوٹ اور دھوپ سے بچوں کی بس ہونے لگی اور ہم اپنی قسمت پر آمین پڑھتے کمرے کو لوٹے۔

چیک آوٹ کا اور عمرے کے لئے نکلنے کا ٹائم ہوا جاتا تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ اس ایک رات اور آدھے دن میں اتنی بھی فراغت نہ ملی تھی کہ دو گھڑی گوگل ہی کر کے دیکھ لیتے جنت البقیع کا رستہ۔ یہ تو گھر واپس لوٹ کر جانا کہ جس دیوار کے گرد پھرتے رہے اسی کے اندر ہزاروں عظیم ہستیوں کی جنت تھی۔۔

عمرے کے لئے جلدی جلدی پیک آپ کرتے پاکستان سے بہن کا اک غیر متوقع فون آیا جو ہماری کم علمی کو مدنظر رکھتیں ہمیں اپنے کئی بار کے تجربات کی بنا پر کچھ معلومات دینے لگیں تو علم ہوا کہ ریاض الجنہ تو دراصل روضہ رسول کا وہ حصہ ہے جس پر سبز قالین بچھا ہے اور جسے جنت کا حصہ کہا گیا ہے۔جس پر پہنچ کر پہلے نوافل اور پھر درودوسلام پڑھنا تھا۔یہ تو کم سے کم مجھے خبر نہ تھی نہ ہی سبز قالین کی کوی جھلک دیکھی تھی۔میں تو بہت قریب بھی نہ پہنچی تھی تو امید تھی کہ میں محروم مراد ٹھہری تھی۔اب جو حقیقت کا ادراک ہوا تو دل کو فکر لاحق ہو گئی کہ اب اگر اس نکڑ سے آ کر نکلنے سے پہلے جانتے بوجھتے ریاض الجنہ میں قدم دھرے بغیر وہاں نوافل اور سلام کیے بغیر روانہ ہوگئی تو یہ غم ساری عمر نہ جاے گا اور اس گھڑی اس لمحے میں کسی خسارے کے سودے کے موڈ میں نہ تھی۔میاں صاحب نے میرے تیور دیکھے توسخت نظروں سے گھورا ،وقت کی شدید کمی کا احساس دلا کر،جھوٹی سچی تسلی اور دلاسہ دیکر جلد از جلد نکلنے کا فرمان جاری کر دیا۔مگر میں بھی سوچ بیٹھی تھی کہ آج چاہے آندھی آے ،طوفان آے، دنیا ادھر کی ادھر کیوں نہ ہو جاے،میاں مجھے تنہا چھوڑ کر نکل جا ے یا پھر قتل ہی کر دے ریاض الجنہ تو مجھے ابھی اسی وقت ہر حال میں پہنچنا ہے۔سو غسل کرکے لباس بدل کر میں بغیر کچھ کہے کچھ پوچھے میاں کی سخت نگاہوں کو نظرانداز کرتی کمرے سے نکلی اور ایک آخری بار مسجد نبوی کی طرف لپکی۔فکر یہ بھی تھی کہ خواتین کے لئے روضہ رسول کھلنے کا وقت ہی دو بجے ہے جس سے پہلے ہی ٹیکسی نے گیٹ پر منتظر ہونا ہے اور ریاض الجنتہ تک پہنچتے پہنچتے سب دروازے باری باری کھلتے کھلتے بھی کم سے کم آدھ پون گھنٹا لگ جاتا ہے

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3