پاکستان کا اپنا اقتصادی روٹ، رؤف کلاسرہ کا لیہ یا میرا عیسی خیل


حال ہی میں چند گنے چنے صحافیوں اور اینکروں کی ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے کرائی گئی، گو کہ اب ہم ان صحافیوں کی صف میں نہیں آتے جن کی ملاقات وزیر اعظم سے کرائی جائے یا اس کا خواب بھی دیکھا جائے، پر سن دو ہزار دو میں شوکت خانم کے لئے فنڈ کا جب اجرا ہوا اور مجھ سے اجرا سے پہلے اس کیتشہیر کے لئے جو ہوسکا وہ کیا۔ یہ وہی فنڈ ہے جس کے بارے میں خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ اس کو جوا کھیلنے کے لئے استعمال کیا گیا۔

اسی طرح شوکت خانم کو نہر سے جانے والی سڑک ان دنوں شکستہ تھی اور مریضوں کے لئے جان لیوا تھی۔ ان پر میری ٹی وی رپورٹوں اور ان کے نتائج پر عمران خان جب اور جہاں ملے، یہی کہا کہ عصمت، آپ نے میرے لئے اور ہسپتال کے لئے جو آپ نے کیا وہ میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ اور ہمیشہ عزت دی۔ خیر اس کا یہاں ذکر کرنے کا مقصد صرف تاریخ کے اوراق کو صرف پلٹنا تھا۔

رؤف کلاسرا نے اپنے کئی پروگراموں اور کالموں میں تلہ گنگ میانوالی کے درمیان سڑک کی حالت اور اس پر سفر کرنے والوں کی تکلیف کا ذکر کیا، پر کبھی کسی حکومت کی اس پر نظر نہیں پڑی اور نہ وہاں کے مقامی لیڈروں نے کبھی زحمت کی کہ اس اہم شاہراہ کے حالت زار سے ارباب اختیار کو آگاہ کر دیں اور اس کے لئے فنڈ مختص کرا لیں۔ ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کچھ نہ کچھ لگے رہا کرتے تھے، اور ان کی کوششوں سے چکڑالا اور موسیٰ خیل کے درمیان پہاڑی پر جہاں گھنٹوں ٹریفک بلاک رہا کرتی تھی اب وہاں پہاڑ کو کاٹ کر دو طرفہ سڑک بنا دی گئی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کو ہی کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ علاقے کے مسئلے حکام تک پہنچا کر ان کو حل کرا لیتے تھے۔

رؤف کلاسرہ نے وزیر اعظم کے سامنے بھی یہ اہم مسئلہ اٹھایا تو ان کے اپنے کالم کے مطابق وہاں موجود دو صحافیوں نے اپنے علاقوں کا معاملہ اٹھا کر اس اہم مسئلے پر سے توجہ ہٹا دی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا۔

بات وزیر اعظم کی اس بات پر ختم ہوئی کہ میں نے اپنا خصوصی فنڈ ختم کر دیا ہے۔ خان صاحب آ پ نے اچھا کیا کہ اپنا خصوصی فنڈ ختم کیا اور اسی ارب روپے واپس وزارت خزانہ کو بھجوا دینے کا فیصلہ کیا۔

پر سرکار یہ عام سڑک نہیں بلکہ وہ پاکستان کا واحد اکنامک کاریڈور، یا اقتصادی روٹ ہے، جو صرف میانوالی یا لیہ کو نہیں ملاتا بلکہ کراچی سے لے کر شمال مغربی پورے پاکستان کے درمیان تجارت اور لوگوں کی آمد رفت کا واحد راستہ ہے، جسے شاید لاہور اسلام آباد پشاور موٹر وے سے پہلے موٹر وے کا درجہ دے کر بنا دینا چاہے تھا۔

یہ سڑک صرف اب مظفر گڑھ سے میانوالی اور پھر میانوالی سے تلہ گنگ بلکسر تک انتہائی بد ترین حالت میں ہے۔ جس پر روزانہ درجنوں مسافر کراچی سے لے کر مانسہرہ تک سفر کرتے ہیں، اس پر بڑی بسوں سے لے کر چھوٹی بڑی ویگنیں اور بھاری ٹرک، سامان سے لدے ٹرالر دن رات چلتے ہیں۔ یہ صرف لیہ، میانوالی، ڈیرہ اسمٰعیل خان یا مظفر گڑھ کو نہیں ملا تی بلکہ اس سے بھی آگے، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، رحیم یار خان سے ہوتی ہوئی، سندھ اور بلوچستان کے بھی اہم شہروں سکھر، نواب شاہ حیدراباد کراچی کے درمیان، آمد رفت، اور سامان کی ترسیل کے کام آتی ہے، پر اس پر اگر سفر کریں تو لگتا ہے کے کسی پہاڑی کچے پتھریلے راستے پر سفر کیا جا رہا ہے، یہ مظفر گڑھ تک سنگل روڈ ہے، پر اس پر چلتی بھاری ٹریفک ہے۔

پہاڑی راستہ ہونے کی وجہ سے تلہ گنگ اور موسیٰ خیل تک صورتحال یہ ہے کہ بھاری ٹریفک کی وجہ سے سڑک بہت سے مقامات پر بیٹھ گئی ہے اور گاڑیوں کو ایک سائیڈ کو استعمال کرنا پڑتا ہے، جب کہ وہاں جگہ جگہ بھاری ٹرک سامان سمیت الٹے ہوے ملتے ہیں، جن میں کاروں سے لدے ٹرالر بھی ہوتے ہیں، ہر ماہ درجنوں حادثات میں کی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، بیشمار لوگ زخمی ہو کر ہمیشہ کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ کے پاس خصوصی فنڈ نہ سہی پر کبھی وزارت مواصلات سے اس اہم ترین سڑک کے بارے میں بریفنگ لے لیجیے تو آپ کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا، اور ہو سکتا ہے اپ اس کی فوری تعمیر پر بھی راضی ہو جائیں اور رقم مختص کر دیں۔

جب عیسی خیل کا جب ذکر یا اس کا خیال ذہن میں آتا ہے تو پنجاب کے پسمانددہ ترین علاقوں کی تصویر کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ پنجاب کی قدیم ترین تحصیلوں میں سے ایک ہے، اورعمران خان کے حلقہ کا صدر مقام بھی ہے، یعنی تحصیل ہیڈکواٹر۔ پر یہاں غربت افلاس کا ڈیرہ ہے۔ تحصیل کے قصبے دیہات بارشی نالوں اور دریا کرم کی تباہیوں کا شکار رہتے ہیں۔ تعلیم صحت اور پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورتیں نہ ہو نے کو ہیں۔ قبضہ مافیا کھلے عام سرکاری زمینوں پر قبضے کر رہا ہے مقامی انتظامیہ یا تو ان کے سامنے بے بس یا پھر ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے، عمران خان یہاں سے تیسری بار منتخب ہوئے ہیں، علاقے کے لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ خان صاحب سے اس علاقے کا حق ادا کرنے کا مطالبہ کریں جسے وہ پورا کریں۔ یہاں پینے کے پانی کی فراہمی، ایچیسن کے معیار کے دو سکول، جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال بن جاتے ہیں تو خان صاحب آپ نے اس علاقے کا حق ادا کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).