ٹیکنالوجی ہمارے بچوں کا بچپن نگل رہی ہے–



پہلےپہل پلے لینڈز کی سہولت صرف اور صرف مخصوص تفریح گاہوں میں میسر ہوتی تھی، جبکہ آج یہ پلے لینڈز جگہ جگہ کھلے دکھای دیتے ہیں۔ اور بچوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔ ان پلے لینڈز پر بچوں اور انکے والدین کا بڑھتا ہوا رش دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا جدید ٹیکنالوجی ہمارے بچوں کا بچپن نگل رہی ہے؟ لیکن ہمیں اس بات کا احساس کیوں کر ہو کیوں کہ ہم تو آہستہ آہستہ ہر احساس سے عاری ہوتے چلے جا رھے ھیں۔
ظا ہری بات ہے کہ ہماری بڑہوتری کے ساتھ ساتھ جذبات واحساسات بھی نشونما پاتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے بچوں میں احساس کے نام پر بے حسی منتقل کر رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فواید اور دن بدن اسکی بڑھتی ہویی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم جدید ٹیکنالوجی کے قریب تر جب کہ نیچر سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ اور مزید افسوس یہ کہ ہمیں اس بات کی سنگینی کا اندازہ تک نہیں۔
بچپن کا دور زندگی کے تمام ادوار میں خوبصورت ، خالص ، یادگار اور انمول ہوتا ہے۔ جیسے ایک کورے کاغذ پر پہلے پہل کوی نقش بننا شروع ہو اور پھر نقش پہ نقش بنتے چلے جایں۔ بچپن کی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو رنگ ، خوشبو، احساس اور معصومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا ہے ، خوشنما رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں، احساس کی جگہ بے حسی لے لیتی ہے ، اور معصومیت—عیاریوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ غرضیکہ بچپن کا دور ہماری زندگیوں پر سب سے زیادہ اثرانگیز ہونے والا دور ہوتا ہے اس لیے اس دور میں بننے والا ہر نقش اہم ہوتا ہے ۔

ٹیکنالوجی ہمارے بچوں کا بچپن کیسے نگل رہی ہے یہ بات غور طلب ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ آج کا انسان آنکھ ہی مشینی دور میں کھولتا ہے، اور اس پہ ستم یہ کہ زرا ہوش سنبھالتے ہی ہم اپنے بچوں کو کھلونے نہیں بلکہ مشینریز تھما دیتے ہیں ۔ ہم انہیں قدرتی ماحول (بادل، پھول، پرندے، جگنووں اور ہوا وں) سے دوستی کرنا نہیں سکھاتے ، ہم انہیں برقی کھلونوں ، سے موبایل فونز سے کمپیوٹرز سے اور مختلف قسم کے ویڈیو گیمز سے دوستی کرنا سکھاتے ہیں۔ انہیں پتا تک نہیں لگنے دیتے کہ کچی مٹی کی خوشبو کیسی ہوتی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کے انکے برقی کھلونوں سے نکلنے والی تیز روشنیوں کے علاوہ جگنو بھی روشنی کرتے ہیں ۔ وہ کیا جانیں کہ جگنو کس بلا کا نام ہے۔ جب وہ قدم اٹھانا سیکھتے ہیں تو ان کے پاوں دبیز اور قیمتی کارپیٹز پر چلنا شروع کرتے ہیں۔ مٹی میں کھیلنا ، چلنا ، گر نا اور گر کر پھر سے اٹھ کھڑے ہونے کے خوبصورت تجربات سے وہ کوسوں دور رہتے ہیں ۔ یا پھر شاذو نادر ہی لطف اندوز ہو پاتے ہیں۔ کسی شاعر نے درج ذیل شعر میں بچوں کے لیے جن کھلونوں کی دعا کی ہے اس پر غور کریں تو نیچر سے محبت اور اسکی اہمیت کا احساس بخوبی جاگ جاے گا؛
خدا کرے کہ ملے میرے پھول بچوں کو

ہوا کا صاف کھلونا فضا کا گہوارہ۔۔۔۔۔۔

27 اگست کے روزنامہ اوصاف میں جدید ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوے خطرات کے حوالے سے مایکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس ، ایپل کے شریک بانی سٹیوجابز اور سوشل میڈیا کے سب سے بڑے نیٹ ورک فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کے بیانات شایع کیے گیے ۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور اسکے بڑھتے ہوے خطرات سے متعلق ان تینوں نامور شخصیات کی راے ایک سی ہے۔ بل گیٹس” نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے بچوں کو ٹیکنالوجی کا محدود استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں سٹیو جابز کا کہنا تھا کہ بچوں کو ان ڈیوائسز کا عادی نہیں ہونا چاہیے۔ فیس بُک کے بانی “مارک ذکر برگ” نے بھی اپنی بیٹی کو فیس بک کے بجائے باہر کھیل کود کر دوست بنانے کا کہا ہے۔

یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ شعبہ ٹیکنالوجی کی ین نامور شخصیات کو دیر سے سہی لیکن اس شعر کا مطلب سمجھ میں آگیا ہے

ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

توازن کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں توازن ہونا کتنا ضروری ہے۔ نیچر سے دوری یا قدرتی ماحول سے دوری اور نت نیی ٹیکنالوجیز سے دن بدن بڑھتا ہوا لگاو ہماری زندگیوں میں عدم توازن کا سبب ہی تو ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور اسکی کرم نوازیوں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا خیال بھی رکھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی ہمارے اطراف کی دنیا کو جدیدیت بخشنے کے ساتھ کہیں ہمارے اندر کی دنیا کو چاٹ تو نہ جاے گی؟

غلطی کا انداز ہ جہاں سے ہو، سدباب وہیں سے کرنا شروع کر دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).