انگلش میڈیم کا طنطنہ اور اردو میڈیم کا شعور
ہمارے ایک جاننے والے ہوا کرتے تھے جو بہت اچھے کپڑے پہنتے تھے۔ ان کو ہر طرح کی نت نئی گاڑیوں، گھڑیوں، یہاں تک کے جدید ترین فرنیچر کے ڈیزائن کا بھی خوب پتہ ہوتا تھا۔ اور ہم سب ٹھہرے پاکستانی۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوں اور تھوڑی بہت زناٹے سے انگریزی بولنے والے کو تو ویسے ہی بنا سوچے سمجھے اتنی عزت دے دیتے ہیں کہ عزت پانے والے سے پوری نہیں سماتی اور نتیجتاً وہ اس عزت کی ایسی تیسی اپنی سوچ دکھا کے کر دیتا ہے۔
اب یہ صاحب ہی لے لیجیے۔ انگریزی اتنی صاف تھی کہ ڈانلڈ ٹرمپ بھی چکر کھا جائے۔ کپڑے ایسے سوٹ بوٹ والے جیسے کوئی 1930 میں انگلستان سے سیدھا برصغیر پہ حکم چلانے آیا ہو۔ اور کھانا تو ایسے کھاتے تھے جیسے گارڈن ریمزے نے ان کو بچپن میں اپنے ہاتھوں سے شہد اور ملائی گھول گھول کے پلائے ہوں۔ حضرت کی گاڑی بہترین۔ بیگم کے پاس تازہ ترین ڈیزائن کا پرس۔ اور بچہ بھی مہنگی، بڑے منہ اور چھوٹے پہیوں والی بچوں کی سیر گاڑی میں گھومتا تھا۔ دنیا تھی کہ عش عش کرتی۔
پھر ہوا یوں کہ ہم اور ہمارے بچے اور ہمارا پرانا پرس ان کے اور ان کے جدید ترین فیشن سے ابلتے ہوئے خاندان کے ساتھ کھانا کھانے پہنچے۔ قدرت کا کرشمہ تھا یا قسمت کی ستم ظریفی کہ جب بوفے کی میز پہ پہنچے تو کھانا کچھ ٹھنڈا سا معلوم ہوا۔ حضرت نے فوراً اپنی اوقات ویٹر کو دکھائی۔ ’بیرے! نان گرم نہیں ہیں! آخر یہ کیا مذاق ہے؟ ‘ ہم متاثر کیسے نہ ہوتے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے اور ماتھے پہ بھنویں اچکائے ایک شخص اپنا حق مانگ رہا ہے۔ آخر اس نے گرم نان کے پیسے دیے ہیں۔ اس کو گرم نان ہی ملنا چاہیے۔ دنیا میں انقلاب ایسے ہی باذوق اور پر اعتماد لوگوں سے آتا ہے جو دوسروں سے اپنے حق کی توقع بھرپور رکھتے ہیں اور کسی کو بھولنے نہیں دیتے کہ ان کی توقعات کیا ہیں۔
تھوڑی دیر بعد حضرت کو پھر مسئلہ ہوا اور بیرے کو پھر آواز دی گئی۔ یہ کیا۔ پانی کے گلاس میں ایک ہلکا سا نشان؟ حد ہوگئی۔ اس سے تو اچھا ہم کوڑے دان میں بیٹھ کے کھانا کھا لیتے۔ کیوں جی؟ کوئی مذاق سمجھ لیا ہے ان سب نے۔ بیرا گلاس واپس لے گیا اور صاف ستھرے دو گلاس لے کے واپس آیا۔ دل چاہ رہا تھا اپنا کھانا چھوڑ کے کھڑے ہوکے تالیاں بجاتے اسی وقت لیکن ہمارے فرزند نے یہ گوارا نہیں کیا اور ہم اس بات کو بھول گئے کہ صاف گلاس بھی ایک حق ہے۔
خدا کی کرنی پھر یہ ہوئی کہ ہم پھر ان کے ساتھ ایک کھانے پہ مدعو ہوئے اور ہم نے پھر ان کا اعلی معیار دیکھا۔ اس دفعہ انہوں نے سب کے سامنے اپنی بیگم پہ برسنا شروع کر دیا۔ ہم نے سوچا شاید مزاج برہم ہے اس لئے سب کے سامنے لڑائی ہوگئی۔ پھر اگلی چند ملاقاتوں میں یہ صاحب ایسی ہی حرکتیں کرتے رہے اور بالاخر ہم نے اندازہ لگایا کہ جناب جتنے اونچے محل میں یہ رہتے ہیں، ان کی سوچ اور ان کا ذہنی ارتقا اتنی ہی پستی کا شکار ہے۔
چونکہ ہم انگریزی سے فوراً احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو انگریزی نہ بولے وہ ہمارے نزدیک جاہل، اجڈ اور گنوار ہوتا ہے لہٰذا معاشرے میں کچھ فرشتہ صفت لوگ بھی ہیں جو تب یاد آتے ہیں جب یہ انگریزی میڈیم جاہل نظر سے گزرتے ہیں۔ ایک اور صاحب جو اکثر و بیشتر شلوار قمیض میں ملبوس رہتے تھے اور انگریزی بمشکل بول پاتے تھے اپنی بیوی اور اپنے چھوٹے سے فرزند کو لے کے ہمارے گھر آئے۔
ہم اندر اندر سے ہچکچاتے ہوئے ان سے ملے کیونکہ وہ عزت کی ان بلندیوں کو پار کر رہے تھے کہ ہمارا نام تک نہیں لے رہے تھے اور اپنے ساتھ بہت بڑا تحفہ بھی لائے تھے جو کافی بیکار ثابت ہوا مگر ہمیں یقین ہے انہوں نے اس پہ بے پناہ وقت، محنت اور پیسا لگایا ہوگا۔ ان کی بیگم سادہ طبیعت کی معلوم ہوتی تھیں اور اپنے نومولود بیٹے کو سنبھالنے کی پوری کوشش میں لگی تھیں۔
جس بات پہ ہم حیران رہ گئے وہ یہ تھی کہ یہ حضرت قدم قدم پہ اپنی بیگم کے ساتھ مدد کر رہے تھے اور ہنستے مسکراتے ایسی ایسی باتیں کر رہے تھے جو ہم نے پڑھے لکھے امیر کبیر حضرات کے بھی منہ سے نہ سنی تھی۔ ان باتوں میں بیوی کی مدد کرنا، راتوں میں اٹھ کے بچے کا دودھ بنانا، بیوی کا دل چاہے تو اس کو فوراً میکے روانہ کر دینا کیونکہ ساری زندگی تو عورت اپنے گھر میں ہی رہی ہوتی ہے اچانک سے سسرال یا میاں سے اتنی محبت کیسے ہو جائے کہ گھر یاد نہ آئے؟ جب وہ کھانا وغیرہ کھا کے ہمارے گھر سے رخصت ہوئے تو ہم بڑی دیر تک اس سادہ سے شخص کی انسانیت پہ غور کرتے رہے۔
سچ تو یہ ہے اپنے سے کمزور سے ہمدردی اور بے جا کی شو شا نہ دکھانے میں ہی انسان کی تہذیب اور تعلیم دکھتی ہے، ورنہ ڈگریاں تو گدھے پہ بھی لادی جا سکتی ہیں اور کسی ٹرک کے پیچھے بھی پھینکی جا سکتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کے بعد اگر آپ عورتوں کی عزت کو خاطر میں نہ لا سکیں، اگر آپ مہنگا سوٹ یہ سوچ کہ پہنیں کہ آپ چار لوگوں میں اپنی برتری دکھانا چاہتے ہیں، اگرآپ کی قیمتی ٹائی آپ کی گردن میں سریے کو سنبھالے ہوئے ہے اور اگر آپ کی کروڑوں کی جائیداد آپ کو غریبوں کا درد نہیں سکھا رہی اور اگر آپ کی ڈگریاں آپ کی جہاں دیدہ آنکھوں میں دید نہ دے رہی ہوں تو ایسی دولت، شعبدہ بازی اور ایسی انگریزی پہ لام عین نون تے۔
- پاکستانی سینما کے بدلتے دور - 03/09/2021
- بڑے انسان اور گھن چکر لوگ - 30/11/2018
- انگلش میڈیم کا طنطنہ اور اردو میڈیم کا شعور - 07/09/2018
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).