تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی اور سرمایہ دارانہ نظام کے گماشتے “نجی ٹی وی چینلز”


سن انیس سو اکتالیس میں ہالی وڈ میں Frank Capra نے ایک فلم بنائی جسکا نام ہے۔۔ “Meet John Doe ” اس فلم کا ہندی ورژن سن 1989 میں جاوید اختر نے ” میں آزاد ہوں” کے نام سے ہندوستانی پسمنظر میں تحریر کیا۔ یہ کہانی مارکسسٹ نظریہ پہ مبنی ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ کل شب جس وقت میں یہ فلم دیکھ رہی تھی تو زہن میں کچھ سوال ابھرے اور پھر انکے جواب بھی ، لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے فلم کا مرکزی خیال سنانا بھی ضروری ہے۔

پہلا سین۔

میٹنگ کا منظر جس میں سیٹھ صاحب اپنے پی اے کے ساتھ اس اخبار کے ایڈیٹر سے بحث کر رہے ہیں جسکا اخبار انہوں نے حال ہی میں خریدا ہے۔ چونکہ ایڈیٹر ایک معیاری اخبار چلانے کا عادی ہے اس لیے نئے مالک کی بات اسکی سمجھ نہیں آتی، ایک دم سیٹھ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے۔

“آہستہ سے سچ بولو گے تو کوئ نہیں مانے گا اور زور سے جھوٹ بولو گے تو سب مانیں گے۔ میرے اخبار کی خبریں سچ بولیں یا جھوٹ لیکن جو بھی بولیں زور سے بولیں”

اب اخبار کا ایڈیٹر کیونکہ سیٹھ کا ملازم ہے اس لیے اس کو وہ ہی کرنا ہے جو سیٹھ کہے گا۔ اس مقصد کے لیے ایسے تمام لوگوں کو نوکری سے فارغ کرنا ہے جو اصولوں اور نظریات پہ بات کرتے ہیں، جس دن وہ اپنے اخبار کی سب سے اچھی کالمسٹ کو نوکری سے نکالتا ہے اس روز وہ اپنے غصہ کے اظہار کے لیے ایک فرضی کردار” آزاد” کے نام سے ایک مکتوب تحریر کرتی ہے ۔ آزاد معاشرے کے جبر سے تنگ آکر خودکشی کرنے والا ہے اور اس تحریر میں ان تمام موضوعات پر لکھتی ہے جو وہ آج تک اپنے نام سے لکھنے سے گریزاں تھی۔ اگلی صبح اخبار کا فرضی کردار مقبول ہو جاتا ہے ۔ سیٹھ اس بات پہ کالمسٹ کی نوکری بحال کرتا ہے ساتھ ہی تنخواہ میں بھی اصافہ ہو جاتا ہے۔

اب کالمسٹ کے لیے دوسرا سر درد یہ کہ اداکار کہاں سے ملے جو” آزاد ” کا کردار نبھائے، ایک روز بس اسٹاپ پر بس کے انتظار کے دوران اسے سڑک پہ آزاد کا کردار مل جاتا ہے۔

ایک شخص بھوک سے نڈھال ہے اور زمین پہ ایک ادھ کھاے سیب کو لالچ سے دیکھ رہا ہے، اور کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح وہ زمین پہ پڑے اس پھل کو اٹھا لے۔ ایسے میں صحافی عورت اور اس کا پریس فوٹو گرافر اس شخص کو صرف کھانے اور تھوڑے سے جیب خرچ کی لالچ دیتے ہیں اور وہ آزاد بننے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

یہ ہے مرکزی خیال۔ اب اس کہانی کو آج کے تیز رفتار دور کے حساب سے سمجھتے ہیں۔

اگر آپ کچھ دیر ہمت اور حوصلے سے نیوز چینلز دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے نیوز کاسٹر تشنجی کیفیت میں مبتلا ہے، ایک ہی خبر کی گردان اونچی آواز میں کرتا ہے، ایک ہی وڈیو کلپ بار بار بریکنگ نیوز بنا کے ناظر کے منہ پہ مارا جا رہا ہے، فرق صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ہے

” یعنی میرے اخبار کی خبریں سچ بولیں یا جھوٹ لیکن جو بھی بولیں زور سے بولیں”

اب آتے ہیں فرضی کردار پے ، عزیز قارئین پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں بھوکوں کی کوئ کمی نہیں ہہاں چند پیسوں کی لالچ میں سب کچھ بک جاتا ہے ایک فرضی کردار ڈھونڈو دس مل جائیں، جس طرح بچت بازاروں میں دکاندار آواز لگاتے ہیں ہر مال ملے گا دو آنے اسی طرح پاکستان میں ہر کردار ملے گا دو آنے والا حساب ہے۔

میرے مشاہدے میں حال ہی میں ایک کردار نے جنم لیا۔ چونکہ آج کل می ٹو کی وبا پھیلی ہوئی ہے، اس وبا کو عام کرنےاور محض اپنے ویورز اور ریٹنگ بڑہانے کی خاطر ایک نجی ٹی وی چینل نے ایک بائیس سالہ لڑکی کو اپنے استاد کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا ۔

کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی میں ہو نے والے واقعے پہ میں نے ایک بلاگ تحریر کیا تھا “اساتذہ ، جنسی ہراسانی کا معمہ اور عہد حاضر کی ہیرا منڈی “

میرے بلاگ کو پڑھنے کے بعد ان صاحب نے مجھ سے میسنجر پے رابطہ کیا اور اپنے اوپر گزرنے والی اذیت اور بدنامی کی دکھ بھری داستان سنائی انہوں نے اپنے فون کے کال لاگ کے اسکرین شاٹ بھیجے جس میں اس لڑکی کی طرف سے آنے والی کال کی تفصیل موجود ہے، یہاں پھر آزاد کا ایک جملہ تحریر کرتی ہوں آزاد ایک مقام پر ایک جملہ کہتا ہے کہ ” آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے” ۔ ایک ٹی وی چینل اور چھوٹے سے خواتین کی بہبود والے این جی او کے ساتھ مل کر یہ کھیل کھیلا گیا۔

دراصل اس لڑکی کا بھی کوئی قصور نہیں وہ بھی مظلوم ہی ہے۔ تھوڑے سے پیسوں کی لالچ، کچھ لائم لائٹ میں آنے کی آرزو احساس کمتری کی شکار غریب علاقے کی ترقی پزیر لڑکی کے لیے اس سے آسان اور فوری کوئ طریقہ نہیں۔ وہ تو سڑک پر گرے ہوئے پھل کو اٹھانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی کہ پوری دیگ ہی مل گئی اس سے اچھا کیا ہو گا؟

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر اس شخص کی اپنی کوئی رائے کوئ شناخت نہیں ہوتی وہ محض ایک کٹھ پتلی کی طرح ہوتا ہے اور اس کو وہ ہی کرنا پڑتا ہے جو ہدایتکار کی مرضی ہوتی ہے۔ یعنی کردار کو مصنف کے لکھے آدھے سچ کو ہی نبھانا ہو گا اور اختتام بھی وہی ہوتا ہے ۔ گویا اگر لکھنے والے نے خودکشی کرنے کا اعلان کر دیا ہے تو وہ ہی کرنا ہو گا۔

بالکل ویسے ہی جیسے آزاد کو خودکشی کرنی پڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).