کپتان نے پیسے کے لالچ میں آ کر ایمان پر سمجھوتہ نہیں کیا


کپتان نے امریکی یونیورسٹیوں اور آئی ایم ایف وغیرہ کی تعریف دیکھ کر یہ سوچ لیا تھا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل عاطف میاں کے پاس ہے۔ حکومت ملنے سے پہلے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم بنتے ہی عاطف میاں کو وزیر خزانہ بنا دوں گا۔ لیکن پھر عوام الناس نے کپتان کو بتایا کہ عاطف میاں کا عقیدہ درست نہیں ہے تو کپتان نے عاطف میاں سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔

اب حکومت ملنے کے بعد کپتان نے دانش سے کام لیتے ہوئے عاطف میاں کو وزیر خزانہ تو نہیں بنایا مگر کسی کے بہکاوے میں آ کر اٹھارہ رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن بنا ڈالا۔ کپتان نے یہ سوچا ہو گا کہ کونسل میں موجود 17 پکے مسلمانوں کے سامنے عاطف میاں کی کوئی سازش نہیں چلے گی۔ بہرحال کپتان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ تخت کا تختہ کرنے کو ایک بھی بہت ہوتا ہے۔

اس تقرری پر تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے عمومی طور پر تعریف ہی کی گئی کہ کپتان نے میرٹ پر تعیناتی کی ہے۔ ان حامیوں نے باقی ماندہ عوام کو مسلسل یہ سمجھانے کی کوشش بھی کہ ملک کی ترقی کرنے کے لئے میرٹ دیکھنا چاہیے عقیدہ نہیں۔

ابتدا میں کپتان نے اس مخالفت کی زیادہ پروا نہیں کی۔ کپتان کامل بائیس برس سے مخالفین کا استقامت سے سامنا کر رہا ہے۔ اسے بھلا اس ہلکی پھلکی ڈھولکی کا شور کہاں پریشان کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مخالفت کرنے والوں میں بیشتر افراد مسلم لیگ نون کے حامی تھے۔ کپتان کو مزید پھنسانے کے لئے احسن اقبال نے کپتان کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا۔

غالباً اسی وقت کپتان نے سوچا ہو گا کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ کالی دال ویسے تو جادو ٹونے وغیرہ سے بچانے میں اکسیر ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ احسن اقبال اور ان کے ساتھیوں کی ایسی حمایت کی وجہ سے ہی تو میاں نواز شریف آج جیل میں چکی پیس رہے ہیں۔

ہمارا کپتان ایک سچا ڈیموکریٹ ہے۔ کپتان رائے عامہ کی نہایت عزت کرتا ہے۔ سیانے کہہ گزرے ہیں کہ خلق خدا کو نقارہ خدا سمجھو۔ کوئی غلط فیصلہ ہو جائے تو ڈھول بجتے ہی کپتان فیصلہ تبدیل کر لیتا ہے اور اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اس پر ہٹ دھرمی نہیں دکھاتا۔ کوئی لیڈر اس سے بڑھ کر عوام کو کیا عزت دے سکتا ہے؟

جب عوام الناس نے یہ واضح کر دیا کہ کپتان کا موقف غلط ہے اور عاطف میاں کے میرٹ سے پہلے ان صاحب کا عقیدہ دیکھنا لازم ہے کیونکہ یہ ایمان کا تقاضا ہے، تو کپتان نے یہ ہرگز بھی نہیں سوچا کہ اس تقرری کو منسوخ کرنے سے پاکستان کی معیشت کا کتنا نقصان ہو گا اور اس نقصان کو کپتان کی حکومت کو ہی بھگت کر گلی کوچوں میں بدنام ہونا پڑے گا۔

کپتان نے پیسے کے لالچ میں آ کر ایمان پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسے دور میں روپے پیسے سے ایسے بے نیاز لیڈر کہاں ملتے ہیں۔ بیشتر لیڈر تو شدید کرپٹ ہوتے ہیں اور پیسے پر جان دیتے ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل کے حکومتی فیصلوں پر بھی ڈھول بجتے ہی کپتان راہ راست پر آ جایا کرے گا۔ زندہ باد کپتان۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar