ذہانت بھی مذہبی ہوتی ہے؟



یہ تحریر لکھنے سے پہلے میں بتانا چلوں کہ میرا تعلق جس قوم سے ہے اسکو انسان کہتے ہیں اور میرا مذہب مجھے انسانیت کا درس دیتا ہے اس کے علاوہ مجھے کسی کو یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ میں کتنا بڑا اور سچا مسلمان ہوں۔

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک اقلیتی کمیونٹی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دبائو اتنا بڑھ گیا کہ گورنمنٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ آپ ٹھیک سمجھے میں عاطف میاں کی بات کر رہا ہوں جس کا تعلق احمدی طبقے سے ہے اس کے نام کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ اہم معلومات بھی بتاتا چلوں کہ 2014 میں آئی ایم ایف نے عاطف میاں کو دنیا کے ٹاپ 25 اکانومسٹ کی لسٹ میں ڈالا تھا یہ پرنسٹن یونیورسٹی میں اقتصادیات، پبلک پالیسی اور فنانس کے پروفیسر ہیں اور ان کا شمار دنیا میں میکرو معیشت کے بہتریں ماہرین میں سے ہوتا ہے

ذہانت کبھی مذہبی نہیں ہوتی اور اگر مسلمان اپنا فوکس روٹی پر اللہ دیکھنے پر، دھرنے دینے، مذہب کو اپنے انداز سے پیش کرنے، اور غیر مسلموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے پر صرف کریں گے تو ہمیں ذہین لوگ باہر سے ہی امپورٹ کرنے پڑیں گے- جب انسان مشکل میں ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی مشکل حل کرنے والا ہندو ہے، کرسچن ہے یا یہودی وہ اس کو خدا کی طرف سے وسلیہ سمجھ کر اس کی مدد قبول کرتا ہے یہی سوچ پاکستانیوں کی بھی ہونی چاہئے تھی لیکن افسوس ہم نے مدد لینے اور دینے میں بھی مذہب کا استعال شروع کر دیا ہے

اگر ہم آج اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کریں گے تو ہمیں پھر برما اور انڈیا کی مسلم اقلیتوں کے لئے آواز اٹھاتے شرم آنی چاہئے کیونکہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جو ہم اپنے ملک میں اپنی اقلیتی برادری کے ساتھ کر رہے ہیں

ہم کتنے بڑے مسلمان ہیں آج اس بات کا ہم ثبوت دے سکتے ہیں چلیں آج ہم اپنے موبائل، لیپ ٹاپ توڑ ڈالتے ہیں، فیس بک کو ان انسٹال کر دیتے ہیں، جن بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں پر ہمارے یہی مذہبی رہنما پھرتے ہیں ان کو جلا ڈالتے ہیں کیوں کہ یہ سب کافروں کی ایجادات ہیں ہم تو بس بیٹھے ان کی ایجادات کے مزے لوٹنے میں لگے ہیں۔

چلیں اس کو اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں غزوہ بدر میں جضورﷺ نے قیدیوں (کفار) سے کہا کہ انہیں آزادی لینے کے لئے مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا (دنیاوی تعلیم) سکھانا پڑے گا ہم سب مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے تو اگر انہوں نے غیر مسلم قیدیوں کی ذہانت کے استعمال کو برا نہیں سمجھا تو ہم ان کی امت اس کو کیوں برا سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایک اقلیتی برادری کے ذہین شخص سے ملک کی بہتری کے لئے مشاورت کرنے میں مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا
اگر ہم اس ملک بنانے والی ہستی، قائداعظم کی بھی بات کریں تو ان کی 11 اگست 1947 کے خطاب کو بھی یاد رکھنا چاہئے ” آپ کسی مذہب، کسی ذات، کسی عقیدے کے بھی ہوں امور ریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).