حضرت عمر ؓ کا اسلامی واقعہ اور سائنسی ایجاد


اس طرح کے تحریری سلسلہ کی یہ میری پہلی تحریر ہے، اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طرح کی تحریروں سے آخر کیا مقصود ہے؟ ان تحاریر کی بنت کیسے ہو گی، او ر اس میں مجھے کن لوگوں کی معاونت حاصل ہے؟
چلیے اب بغیر طوالت کے بات کا بہاؤ مدعے کی طرف موڑ دیں۔

میں اس وقت گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا، جب میرے فزکس کے معلم نے کہا کہ آج سائنس شبِ معراج کے واقعہ کو ہرگز نہیں جھٹلا سکتی۔ وقت کے رک جانے کے امر کو سائنسی زبان میں ٹائم ڈائیلیشن کہتے ہیں۔ اس دن وہ ہمیں ٹائم ڈائیلیشن ہی پڑھانے والے تھے۔

میں نے اس کے بعد غور کیا کہ اسلام کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات و معجزات ہیں جنہیں بالآخر سائنس نہ صرف تسلیم کرے گی بلکہ یہ واقعات نئی ایجادات کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اسلام کی برکات سے ایسی کرامات ظاہر کیں جنہیں ہم سائنس کی نئی ایجادات کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔

میں نے اس سلسلہ کو شروع کرنے سے پہلے چند علماء کرام اور اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب (کندیہ شریف ) سے مشاورت کی اور انہوں نے اس تحقیقی سلسلہ کو علماء کرام کے زیر نگرانی شروع کرنے کی اجازت دی۔

آج جو اہم واقعہ آپ کے حضور پیش کر رہے ہیں، وہ آج کے دور میں ہر عام و خاص کے لیے طشت از بام ہے۔ یہ واقعہ حضرت عمر ؓ کی کرامت ہے۔

واقعہ
نافعؓ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے ایک فوج کہیں روانہ کی اور ایک شخص جن کا نام ساریہ تھا امیر مقرر کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر ؓ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ یکایک پکار کر کہنے لگے، اے ساریہ ؓ اس پہاڑ کا رخ لو۔ اور یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی، ( پھر بدستور خطبہ پورا کیا اور کچھ عرصہ بعد) اس فوج کی طرف سے ایک قاصد آیا۔ تو اس سے حضرت عمر ؓ نے حالاتِ جنگ دریافت کیے، وہ کہنے لگا
اے امیر المومنین! ہم جنگ میں ہارنے اور بھاگنے لگ گئے تھے کہ اتنے میں ہم نے کسی پکارنے والے کی آواز سنی جس نے تین مرتبہ کہا کہ اس پہاڑ کی آڑ لو ہم نے اسی پہاڑ کی طرف پیٹھ کر لی اور لڑے۔ بس پھر اللہ پاک نے کافروں کو شکست دی، راوی کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ ہاں ہاں آپ نے تو ایک دن پکار کر یہی الفاظ کہے تھے۔ (بحوالہ کتاب النبوات صفحہ نمبر 472)
اس واقعہ میں حضرت عمر ؓ نے میلوں دور موجود حضرت ساریہ ؓ کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان تک ان کی آواز بھی پہنچی۔

عصرِ حاضر میں یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر قارئین ذرا غور کریں کہ یہ واقع ساتوں صدی کے درمیانی سالوں کا ہے۔ تب ذرائع ابلاغ کے ذرائع انتہائی محدود تھے۔ کوئی ایسا ہو نے کا گمان بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اس دور میں کامیاب ترین ذرائع ابلاغ مندرجہ ذیل تھے۔
٭ سموک سگنلز
٭ سیما فور سسٹمز
٭ چینز آف بیکنز
٭ کبوتر وغیرہ

یہ تمام ذرائع صرف اشاروں یا بہت ہی قلیل اور اہم معلومات کو چند کلو میٹرز کے اندر تک پہنچانے کے کام آتے تھے۔
1870 کی دہائی میں ٹیلی فون کی ایجاد سے پہلے انسان نے ٹیلی کمیونیکیشن میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کی تھی۔ اور اس کے بعد جب مارکونی نے ریڈیو ویوز متعارف کرائیں تو سائنس کو در حقیقت ایک نئی جہت نصیب ہوئی۔ جس کے ثمرات آج ہم موبائل، انٹر نیٹ کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

اگر ہم اسلامی تاریخ کے ایسے واقعات پر تحقیق شروع کرتے تو ممکن ہے حضرت عمر ؓ کے اس واقعہ کے بعد موبائل فون کی ایجاد کو 13 صدیاں نہ لگتیں۔
ہم انشاء اللہ ایسے تمام واقعات پر تحقیق کر کے ان سے حاصل ہونے والی ممکنات کو زیرِ بحث لائیں گے تا کہ سائنس ان ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر سائنس میں نئی سمتیں ڈھونڈیں۔

اگر آپ ایسے واقعات جانتے ہیں تو براہ کرم مستند حوالہ کے ساتھ کمنٹ بوکس میں لکھیے۔
اگر آپ اپنے تئیں اس تحقیق کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو صرف ایسے واقعات پر تحقیق کر کے دوسروں تک پہنچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).