وزیر اعظم ہاوس کو سیاستدانوں کی تربیت گاہ بنائیں


وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ چوں کہ ابھی تک یوٹرن نہیں لیا جا سکا، لہذا اعلان مذکورہ ابھی تک برقرار ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہی میں قائداعظم یونیورسٹی، انٹر نیشنل اسلامک یو نیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور کچھ سرکاری اور نجی اداروں میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی سطح کی ریسرچ کلاسز جاری ہیں۔ معیار کو مزید بہتر اور ریسرچ کے جدید ترین منہاج اپنانے کی گنجائش موجود ہے۔ اگر وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنایا ہی جارہا ہے، تو خدارا اسے معمول کی ڈگریاں بانٹنے والا ادارہ نہ بنایا جائے۔ یہ کار خیر پہلے ہی بہت سے ادارے انجام دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم ہاوس کو سیاسیات کی یونیورسٹی بنا کر سیاسی نمایندوں کی اچھی تربیت گاہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں بد قسمتی سے زیادہ تر فیوڈل کلاس اور کہیں کہیں برادری کی بنیاد پر انتخاب جیت کر اسمبلیوں میں آ جاتے ہیں۔ جنرل مشرف نے جب بی اے کی شرط لگا‏ئی تو کئی سیاسی خانوادوں کے پارلیمنٹیرین اپنی جعلی ڈگریوں سے عزت سادات گنوا بیٹھے۔ ڈگریوں کا فیشن اتنا مقبول ہوا کہ بابر اعوان، عامر لیاقت حسین نے اپنی شہرہ آفاق ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ایسی یونیورسٹیوں سے حاصل کیں (یا خریدیں) جن کا وجود ایک وبب سائٹ کے علاوہ کرہ ارض پہ کہیں نہ مل سکا۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے تک ایل ایل بی جو کہ قانون کی پیشہ ورانہ ڈگری ہے کو مختلف یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ کالجوں  نے پیسے کا کھیل بناکر ڈگریاں دلوائیں اور پھر کالا کوٹ عدم انصاف کی ایسی علامت میں منقلب ہوا، جس سے نہ جج محفوظ رہے نہ پولیس نہ کوئی اور۔

وزیر اعظم ہاوس کو سیاسیات کی یونیورسٹی بنانے کی تجویز کا مقصد محض پولیٹیکل سائنس میں ایم اے، ایم فل یا پی ایچ ڈی کرانا نہیں بلکہ اسے ہمارے منتحب نمایندوں کی تربیت گاہ بنانا ہے۔ فیوڈل کلاس اور برادری سسٹم سے نمو پذیر سیاستدانوں سے اونگھنے اور سونے کے علاوہ اور کسی پارلیمانی کارکردگی کی توقع کم کم رہتی ہے۔ وہ اسمبلی تشریف لاتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں، کچھ دستیاب وزرا سے کام نکلواتے ہیں، وزیر اعظم کے گھٹنوں پر ہاتھ لگا کر وفادار ہونے کا ثبوت دیتے اسمبلی سے نکل جاتے ہیں۔ انھی نمایندوں کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو بہتر بنانے کے باب میں تجاویز حاضر ہیں۔

(الف) مجوزہ سیاسیات یونیورسٹی میں منتخب نمایندوں اور ان لوگوں کو جو عملی سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں، کو امور حکومت (انتظامیہ) اور آئینی امور (مقننہ) کے حوالے سے خصوصی کورسز کرائے جائیں۔ مختلف اسمبلیوں کے ارکان کو مختلف اوقات میں مختلف شیڈول بنا کر تدریسی پروگرام ارینج کیا جا سکتا ہے۔

(ب) ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ڈیبیٹ (مذاکرہ، مباحثہ، مکالمہ) سیاسی کلچر کا اہم ستون ہوتا ہے اور اسی ذریعے سے پارٹیوں کے اندر نئی لیڈر شپ ابھرتی ہے۔ چوں کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں ساری سیاسی پارٹیوں کا اسٹرکچر پارٹی قائد کی طرف سے نام زدگیوں پر استوار پے، لہذا اس مجوزہ یونیورسٹی میں نمایندوں کے درمیان ڈیبیٹ /مباحثہ کا اہتمام سب سے بڑا تخلیقی پہلو ہو گا۔

(ج) بلدیاتی نمایندوں کی تعلیمی قابلیت چاہے ایف اے رکھ دی جائے یا بی اے، ان کو بالعموم نہ اپنے اختیارات کا ادراک ہوتا ہے نا ہی پلاننگ کا کوئی حقیقی تصور۔ بہتر ہو گا کہ ان کو بلدیاتی نظام سے مکمل آگاہی دی جائے۔ ان کو مغربی دنیا خاص طور پر برطانیہ، ہالینڈ، فرانس وغیرہ کے بلدیاتی نظام بطور ماڈل پڑھائے جائیں۔

(د) سیاسی نمایندوں کے وژن کو وسیع کرنے اور تاریخ کے بہتر شعور کے لیے مختلف الخیال پرانے (ریٹائرڈ) بیوروکریٹس، سابق جرنیلوں، سینیئر قانون دانوں، پاکستانی جامعات کے اساتذہ اور بزرگ صحافیوں کے لیکچرز رکھے جائیں۔ان لیکچرز میں ان کی شرکت کو ضروری قرار دیا جائے۔

(ر) مختلف کورسز کا دورانیہ چار سے چھہ ماہ کا ہونا چاہیے۔ داخلہ امور، فارن افیئرز، فنانس، قانون، کریمنالوجی، پارلیمانی امور، پبلک ایڈمنسٹریشن، کشمیر و افغان امور، اسلامی فقہ، بلدیات اور اخلاقیات سمیت لا تعداد شعبے ایسے ہیں، جن میں ممتاز ماہرین تعلیم سے کورسز مرتب کروائے جا سکتے ہیں۔

(س) چوں کہ منتخب نمایندوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں بھی وقت گزارنا ہوتا ہے اور کئی ارکان کسی پارلیمانی کمیٹی یا کسی وزارت کی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں، ان کی آسانی کے مطابق ہفتے میں صرف دو دن کلاسز رکھی جائیں اور وہ بھی ان کی نازک طبع کے تحت دو تین گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوں۔

(ص) پیپر حل کرنا، لکھنا پڑھنا ان کی طبع پر ناگوار گزرے گا، لہذا ان کی کلاس حاضری کی شرح، مذاکرہ و مباحثے میں کارکردگی اور زبانی امتحان (وائیوا) کی بنیاد پر سرٹیفکیٹ دیا جائے۔ کلاس حاضری کم سے کم اسی فی صد رکھی جاۓ اور مباحثہ میں حصہ نہ لینے والے کو دوبارہ کورس کرنے کا کہا جائے۔

(ط) کورسز مکمل نہ کرنے والے اسمبلی ممبر پر جرمانے کے طور پر ان کی تنخواہیں اور مراعات روک لی جائیں اور ان کی کارکردگی یعنی پراگریس رپورٹس ہر سال شایع کی جائیں۔

(ع) اگر سینئر سیاستدانوں پر اس کا اطلاق ممکن نہ ہو تو کم سے کم چالیس سال سے کم عمر نمایندوں اور ایسے نوجوانوں جو انتخاب لڑنے کے یا کسی سیاسی عمل کا حصہ بننا جاہتے ہیں، ان کو ضرور ان کورسز میں شرکت کا موقع دیا جائے۔ تا کہ پاکستان کا سیاسی کلچر بہتر ہو سکے اور پارلیمنٹ اجتہاد کا ضروری فریضہ انجام دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).