ایک نظام،ایک نصاب،ایک زبان


حکومت کا پورے ملک کیلئے ایک ہی نصاب بنانے کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم اس پر تھوڑا سا اضافہ کریں گے کہ صرف نصاب ہی نہیں بلکہ ایک نظام اور ایک زبان کو ملا کر ایک جامع نظام بنایا جائے تاکہ ایک بہترین قوم تشکیل پاسکے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم کئی دھاروں میں تقسیم ہے جس کا اثر ہمارے معاشرے پر واضح طور پہ دیکھا جاسکتا ہے یعنی ہمارا پورا معاشرہ طبقاتی کشمکش سے دوچار ہے۔ بس تعلیمی میدان ہے اوربھانت، بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ پہلے تعلیم کو دینی اور دنیاوی طور پہ تقسیم کیاگیا ہے جس نے آگے چل کر مزید شاخوں کی صورت اختیار کررکھی ہے۔ دینی تعلیم یعنی مدارس کا نظام مزید تقسیم کا شکار ہے۔ ہر مسلک اور ہر فرقے کا علیحدہ علیحدہ نظام اور علیحدہ نصاب ہے۔ اسی طرح”دنیاوی” تعلیم بھی کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلی تقسیم گورنمنٹ اور پرائیویٹ کی ہے جبکہ آگے جاکر پرائیویٹ سیکٹر کئی خانوں میں پھر تقسیم ہو چلا ہے۔

اوّل : لوئر مڈل کلاس کے ادارے(گلی کوچوں والے)

دوم: مڈل کلاس کیلئے(جہاں فرق کچھ فیسوں کا ہوتا ہے)

سوم:ایلیٹ کلاس کیلئے(جہاں کا مکمل علیھدہ سسٹم ہے اور وسائل سے مالامال ہیں )

الف:حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادارے

ب: بیرونی ممالک/اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے(ایک تعداد اس میں مشنری اداروں کی ہیں۔ جن کی اپنی مقاصد ہیں اور اپنا ہی نصاب ہیں)۔

ان تمام اداروں میں اپنا اپنا نصاب پڑھایا جارہا ہے۔ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جہاں غیرملکی اداروں کا تیار کردہ نظام اور نصاب رائج ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اکثر اداروں میں طلبہ کو ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جو ہماری تہذیب، اقدار، روایات اور معاشرتی آداب سے ہرگز میل نہیں کھاتا بلکہ اس کے متضاد ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مسلم معاشروں پر مغربی تہذیب مسلط کرنا ایک ایجنڈا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے رسمی تعلیم اور غیر رسمی تعلیم حکمت عملی میں اوّلین زرائع ہیں۔ یعنی نظام تعلیم و نصاب تعلیم اور میڈیا وہ ہتھیار ہیں جو اس تہذیبی جنگ میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کئے جارہے ہیں۔ بڑی تعداد میں اس حوالے سے فنڈنگ کی جارہی ہے اور مطلوبہ نتائج پہ بھرپور نظر رکھی جارہی ہے۔ اس حوالے سے دھونس اور دھمکیوں سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا۔ لہذا دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام، ایک ہی نصاب اور ایک ہی زبان رائج ہوں، تب مطلوبہ نتائج حاصل ہوپائیں گے۔ زریعہ تعلیم بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ترقی انگریزی زبان میں تلاش کی جارہی ہے اور بیچارے طلبہ پر غیرملکی زبان ٹھونسی جارہی ہے جس کی وجہ سے”دھوبی کا کتا نہ گھر کا، نہ گھاٹ کا ” کے مصداق یہ ستم رسیدہ بچے نہ قومی زبان اردو سیکھ پاتے ہیں اور نہ انگریزی کے دو لفظ لکھنے اور کہنے کی جسارت پاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور اسے سیکھنا چاہیے مگر ایک مضمون کے طور پر نہ کہ زریعہ تعلیم کے طور پہ رائج کرنا۔

تحقیق سے ثابت ہے کہ جب تعلیم مادری اور قومی زبان کی بجائے غیر کی زبان میں دی جانے کی رسم ہو تو تخلیق کی بجائے رٹہ کرنا ہی مجبوری بن جاتی ہے۔ بالکل یہی المیہ ہمارا ہے کہ طلبہ بیچارے تحقیق کی بجائے رٹہ لگانے میں لگے رہتے ہیں۔ تعلیمی ماہرین کی پختہ رائے ہے کہ تعلیم وہی موثر ہے جو مادری زبان یا زیادہ سے زیادہ قومی زبان میں دی جائے۔ اس لئے تجویز یہ کیاجاتا ہے کہ کم ازکم پرائمری تعلیم مادری زبان میں جبکہ آگے قومی زبان میں دینا ازحد لازمی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے جس سے ایک طرف ہماری قومی وحدت قائم ہے جبکہ دوسری طرف اس میں ہماری پوری تاریخ بھی محفوظ ہے گویا ایک لحاظ سے یہ ہماری تہذیبی زبان بھی ہے۔ یہ المیے سے کچھ کم نہیں ہے کہ ہماری آج کی نسل اردو سے بالکل نابلد ہوتی جارہی ہے۔ اردو لیٹریچر پڑھنا ان کےلئے ایک خواب بنتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے بھی دور اور نابلد ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل غلط اور حقائق کے برخلاف ہے کہ انگریزی ہی واحد زریعہ ترقی ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسی موجود ہیں جنہوں نے اپنی ہی زبان میں ترقی کے منازل طے کررکھے ہیں۔ فرانس، جاپان ، چائنہ اور ترکی کی مثالیں بالکل سامنے ہیں جو معاشی ، تعلیمی اور سائنسی ترقی میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک ایسا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ترتیب دیا جائے جو ہماری قومی اور ملی امنگوں کے مطابق ہوں۔ جو ہمارے شعائر، اقدار اور روایات کا امین اور محافظ ہو۔ فی زمانہ ہمارا پورا معاشرہ اخلاقی گراوٹ سے دوچار ہے۔ تعلیم ہی کے زریعے نسل نو کے سیرت وکرادر کی تعمیر کرکے ہی معاشرے کو سنوارا جاسکتا ہے۔ جنسی بے راہ روی، جرائم، نشے کی لعنت، دھوکہ دہی، ملاوٹ، خیانت گری، کرپشن ، انتہاپسندی، والدین کی نافرمانی، رشتوں کی پامالی یعنی تمام ترسماجی و معاشرتی برائیاں زوروں پہ ہیں مگر ہماری نصاب میں اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ بلاشبہ ہماری قوم کو سائنسی ترقی بھی درکار ہیں اور ہنرمند نوجوان بھی مگر ساتھ ساتھ اخلاق وکرادر کی بلندی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).