نواز لیگ کی اگلی شامت


آپ حیران ہوں گے کہ نواز لیگ کی مزید شامت کس طرح لائی جا سکتی ہے۔ اس کے سربراہ کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعدبیٹی اور داماد سمیت جیل میں پہنچایا جا چکا اور وہ ایک ایسی قید کاٹ رہے ہیں جہاں ان کی زباں بندی ہے۔ میں خود حیران ہوں کہ ان کی زبان بندی کس نے کی ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کا ایک لفظ بھی اپنی زبان پر نہیں لاتے۔ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے جو ایک دو بیانات ان سے منسوب ہوئے، ان کی تردید پارٹی کی ترجمان محترمہ مریم اورنگ زیب نے کر دی۔ ان سے اڈیالہ جیل میں ملنے والے صحافی بھی باپ، بیٹی سے ایک فقرہ نکلوانے کے لئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں مگر وہ ہیں کہ بول کے نہیں دیتے، ایسی صورتحال تو ا س وقت بھی نہیں تھی جب انہوں نے اٹک قلعے سے جدے کے سرور پیلس کی جیل میں منتقل ہونا قبول کیا تھا، تب بھی کسی نہ کسی سے بات چیت کا کوئی نہ کوئی فقرہ رپورٹ ہوجاتا تھا، مارشل لا دور میں بھی ان سے منسوب بیانات شائع ہو جاتے تھے۔

شہباز شریف جیل سے باہر ہیں مگر وہ اپنے بیٹے حمزہ سمیت نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور کسی وقت ، کسی بھی بنیاد پر انہیں تفتیش کے لئے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ ان کے داماد میاں عمران علی یوسف ملک سے فرار ہیں، انہیں ایک ایسے معاملے میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے جس میں وہ اپنے پلازے کے ایک فلور کی فروخت کی مکمل دستاویزات رکھنے کے باوجود کرپشن میں ملوث قرار دئیے جا رہے ہیں اور ان کے بیرون ملک ہونے سے ان کا مقدمہ کمزور ہو رہا ہے۔ نواز لیگ سے بلوچستان کی حکومت تو بہت پہلے مولانا فضل الرحمان کے تعاون سے ہی چھین لی گئی تھی اور سینیٹ میں بھی نواز لیگ کو جہاں بلوچستان سے امیدوار تک نہ ملے، وہاں پنجاب کے سینیٹروں کو بھی آزاد کر دیا گیا۔ نواز لیگ کو وفاق اور پنجاب میں بھی اپوزیشن بنچوں پر بٹھا دیا گیا ہے اور ڈھلوان کے سفر کا ایک منطقی سنگ میل یہ ہے کہ ایوان صدر بھی ممنون حسین کے ہاتھوں اور قدموں میں سے نکل گیا ہے۔ ایسے میں اگر اگلی شامت کی بات کی جائے توسوال ضرور اٹھتا ہے کہ ستیاناس کے بعد اب سوا ستیاناس کیا ہو سکتا ہے؟

کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ عوام ہیں اور عوام سے رابطہ خلا سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ نواز لیگ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے کبھی تنظیم سازی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور حالت یہاں تک رہی کہ چھوٹے بڑے شہر تو ایک طرف رہے اس کی صوبائی تنظیموں تک میں نائب صدور، جوائنٹ سیکرٹریوں ہی نہیں بلکہ جنرل سیکرٹریوں تک کے عہدے خالی رہے۔ نواز لیگ نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلانے کی بھی بہت کم زحمت کی تو اس صورتحال میں پارٹی کی صوبائی اورمرکزی مجالس عاملہ اور جنرل کونسلوں کو فیصلہ سازی کے کسی بھی عمل میں حصہ دار بنانے بارے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ بدترین صورتحال میں بھی اس جماعت نے صرف میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو پارٹی صدرمنتخب کرنے کی خاطر ہاتھ کھڑنے کرنے اور وہاں تقریریں سنانے کے لئے زحمت دی اور اس کے علاوہ منہ نہیں لگایا۔ پارٹی کی تنظیم کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کو گراس روٹ لیول پر کسی بھی سیاسی جماعت کے بلدیاتی نمائندے مقبول اور منظم کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انتہائی نچلی سطح پر اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے جس فارمولے کا غیر جمہوری اور غیر منتخب آمروں کو علم تھا وہ کبھی جمہوری اور منتخب سیاستدانوں کی ترجیح نہیں رہا۔ نواز لیگ ہی نہیں بلکہ غریبوں کی پارٹی کہلانے والی پی پی پی نے بھی ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے فرار کی راہ ہی ڈھونڈی۔

یہ درست ہے کہ نواز لیگ کے ادوار میں ا یک سے زائد مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر ایسے ہر انتخاب کی کہانی پڑھنے والی ہے۔ ابھی گذشتہ دور میں ہی جو بلدیاتی نظام تشکیل دیا گیا وہ اختیارات سے خالی تھا اور بلدیاتی نظام کی بنیادی ذمہ داریاں بھی مختلف کمپنیوں کے حوالے کر دی گئی تھیں اگرچہ یہ کمپنیاں ضلعی حکومتوں کو ہی جوابدہ تھیں مگر اصل میں ان کی کمان صوبائی حکومت کے پاس تھی اور ایوان وزیراعلیٰ لاہور میں بیٹھے خواجہ احمد حسان ان کے معاملات کو ریگولیٹ کرتے تھے۔

نواز لیگ کی اگلی شامت اسی بلدیاتی نظام پر آنے والی ہے۔ میری نظر میں بلدیاتی نظام، چاہے وہ غیر سیاسی بنیادوں پر ہی کیوں نہ بنایا گیا ہو، کسی بھی حکمران کی وہ زمینی فوج ہوتی ہے جو اس کے لئے لڑتی ہے مگر نواز لیگ کی فوج اختیارات کے ہتھیاروں سے مکمل طور پر محروم تھی۔ جب مصیبت یا مشکل میں پھنسے عوام بلدیاتی نمائندوں کو کوئی کام کہتے تھے تو ان کے پاس مسکرا کے دکھا دینے یا اپنے بے اختیار ہونے کا رونا رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اپنے بلدیاتی نظام کو تمام تر خامیوں اور تنقید کے باوجود اچھی طرح شوکیس کیا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پنجاب میں سب سے طاقتور شخصیت علیم خان ہیں جنہیں سینئر وزیر اور وزیربلدیات کا عہدہ دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادتوں کی طرف سے فیصلہ ہو چکا کہ پنجاب میں نواز لیگ کی اکثریت والے لولے لنگڑے بلدیاتی نظام کو لپیٹ دیا جائے گا اوراس کی جگہ وہ نظام لایا جائے گا جو کافی حد تک خیبرپختونخوا کے نظام کا چربہ ہو گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی طاقت کے تمام ایوانوں میں مکمل ’یس‘ ہے اور انہیں بھاری اکثریت نہ ہونے کے باوجود اس طرح کے کسی بھی اقدام سے روکنے والا کوئی موجود نہیں ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ تحریک انصاف نے پنجاب میں مسلم لیگ نون کے نچلی اور مقامی سطح پر مضبوط بلدیاتی رہنماوں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں اور اس سلسلے میں نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل سے قبل ہی اہم اعلانات ہو سکتے ہیں۔ میں نے مسلم لیگ نون کے بعض فعال کارکنو ں سے اس بارے انفارمیشن لی تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی بہت سارے چئیرمین حکومت سے رابطے میں آ چکے ہیں کہ نواز لیگ کے بلدیاتی عہدے داروں کی بڑی تعداد سیاسی طور پر مشکوک ماضی رکھتی ہے۔

نواز لیگ کی قیادت ابھی تک مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ پارٹی تنظیم کی طرف توجہ نہیں دے پا رہے اور اگر ایسے میں عبدالعلیم خان نے بلدیاتی نظام پر کام شروع کر دیا تو سابق حکمران جماعت کا تنظیم کے بعد بلدیاتی ستون بھی ڈھے جائے گا اور اگر تحریک انصاف ایک مضبوط بلدیاتی نظام دینے میں کامیاب ہو گئی جس میں مشرف کے ضلعی نظام کی طرح بلدیاتی نمائندوں کے پاس اختیارات موجود ہوئے، لوگوں نے اپنی گلیوں محلوں کی تعمیر و صفائی سے صحت اور تعلیم سمیت دیگر امور پر ان سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا توپھر مسلم لیگ ن کے پاس اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک بیانیہ ہی باقی رہ جائے گا، وہ بیانیہ جس پر نواز شریف اور مریم نواز شریف اپنی اس حیرت انگیز خاموشی کے باوجود ڈٹے نظر آتے ہیں مگر شائد ان کے بچے کھچے الیکٹ ایبلز اتنی مضبوطی کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکیں۔ کمزور تنظیم کے بعد بلدیاتی حملہ مسلم لیگ ن کو آج سے دس برس پرانی صورتحال پر واپس لے جا سکتا ہے جب اس جماعت کے پاس ٹکٹ لینے والی کی بھی کمی ہو گئی تھی۔ نواز لیگ کہہ رہی ہے کہ وہ بلدیاتی نظام کی حفاظت کے لئے تحریک چلائے گی، اس تحریک میں کنونشن بھی منعقد کئے جائیں گے مگر دوسری طرف یہ امر ایک حقیقت ہے کہ اس مقدمے میں سابق حکمران جماعت کے پاس مضبوط دلائل ، وکیل اور مدعی موجود نہیں ہیں۔ اس کے اپنے بلدیاتی رہ نما روتے رہے ہیں کہ ان کے پا س اختیارات موجود نہیں۔ میاں نواز شریف کی طرف سے بلدیاتی نظام سے بے حسی اور اس کی بے قدری کا عالم یہ رہا کہ انہوں نے اپنے قلعے میں بلدیاتی فوج کی قیادت ایک ڈمی کے حوالے کر دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).