شناسا رات ہے اور بے چراغ گلیاں ہیں


ہم تین دوست تھے۔ سون سکیسر سے گلباز خان آفاقی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چوہدری ظہور احمد اور تیسرا یہ درویش بے نشاں، سر تا سر گمنام، سکونت آشفتگی۔ شعر کی چٹیک مشترکہ بنائے دوستی تھی اور وہ جو حافظ نے کہا تھا….کہ خالی از خلل است۔ لطف یہ کہ شعر خوانی میں تینوں نے اپنا ایک رنگ پیدا کیا تھا۔ گلباز آفاقی ہاتھ کی تیسری اور چوتھی انگلی میں سستا سگریٹ دبا کر مٹھی بھینچ لیتے اور اس خارا شگاف لہجے میں شعر پڑھتے، گویا حضرت کے خروش کا بلڈوزر شیخوپورہ کے نایاب سبز کھچوے کو روندتا ہوا گزر گیا ہے۔ وہی شعر ظہور احمد کی دسترس میں ہوتا تو اس لہک سے پڑھتے جیسے لاہور کی مال روڈ پر ایک سجا سجایا تانگہ خراماں خراماں رواں ہے اور ظہور احمد ایک مست الست صوفی کی صورت، چوکس گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے، شعر کے رنگ دکھاتا، پنجوں کے بل رقصاں گزر گیا ہے۔ وہی گل تازہ شعر اس حرماں نصیب کے حصے میں آتا تو ایک طویل آہ سرد کے بیچ وقفے وقفے سے اٹکتا، کراہتا اور لرزیدہ، حلق کی پیچدار تاریکیوں سے برآمد ہوتا ایسے ہی جیسے عوام کا حق رائے دہی کسی خسروئے زمان کے اشارہ ابرو کی زد میں آ کر دم توڑ دیتا ہے۔ چار دہائیاں گزرنے کو آئیں۔ کسے معلوم تھا کہ قدیم داستانوں کی روایتی بڑھیا کی طرح زندگی آنے والے وقتوں کے اشارے بیان کرتی تھی۔ ہر گام پر گماں گزرتا تھا کہ بس اس گھاٹی کے پار ٹھنڈے پانیوں کے چشمے رواں ہیں، بس یہ پہاڑ کاٹ لیں تو بے داغ سبزے کی وادیوں میں جا اتریں گے۔ ہوتا یہ رہا کہ اچھی خبر آتی تھی تو تردید کر دی جاتی تھی۔ بدشگونی کی افواہ نکلتی تو مرگ مفاجات کی صورت دروازے پر دستک دیتی تھی۔

ابھی دیکھیئے، نومنتخب وزیر اعظم اپنے منتخب روزگار رفقا کے ہمراہ قصر طلسمات کے دورے پر گئے۔ آؤبھگت کی گئی۔ مسکراہٹیں گویا انگ انگ سے پیشوائی کو آگے بڑھیں۔ اور پھر یہ مژدہ جانفزا کہ ’فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ وزیر اعظم کا ہر لفظ حتمی حکم ہو گا‘۔ صدر محترم کی تقریب حلف برداری کے بعد بھی اچھی توقعات کا اظہار ہوا کہ ’ ملک میں جمہوریت فروغ پا رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہو گی‘۔ ان اقوال کی اصابت میں جو شک کرے، وہ سرخ کافر۔ گلہ صرف یہ ہے کہ زیادہ مناسب ہوتا اگر جی ایچ کیو والے الفاظ وزیر اعظم ادا کرتے اور ایوان صدر میں حلف اٹھانے والے محترم صدر مملکت عارف علوی جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کی نوید دیتے۔ قضا و قدر کے کان بہرے، یہاں جیمز جوائس کی مولی بلوم کی خودکلامی کا سا تاثر ہے ۔ His heart was going like mad and yes I said yes I will Yes.

میرے استاد امتیاز عالم بس اپنی طرز کے ایک ہی ہیں۔ کہنے کو صحافی ہیں لیکن سیاست کی شناوری نصف صدی پر محیط ہے۔ ایک لفظ میں صورت حال کا ست نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ ان دنوں ایک ترکیب تراشی ہے۔’جمہوری عبور‘۔ واللہ interregnum کا کیا بلیغ ترجمہ کیا ہے۔ سیلاب میں بہ کر آنے والوں کے لئے ہنگامی طور پر کھڑے کئے گئے خیموں کی وراثت نہیں ہوتی۔ اور یہ سیل بلا تو دہائیوں پر محیط ہے۔ 1948ءمیں اسرائیل کی ریاست سے نکالے گئے فلسطینی عرب کیسے جان سکتے تھے کہ ان کی چوتھی نسل بھی محمود درویش کے شعر ہی میں پناہ ڈھونڈے گی۔ ہمارے ناصر کاظمی نے کہا تھا، رین اندھیری ہے اور کنارہ دور…. چاند نکلے تو پار اتر جائیں۔ بادل ایسے تہ در تہ گھنے ہوں تو چاند کی رونمائی نسلوں کا خواب بن جاتی ہے۔ لفظوں کا کھیل باقی رہ جاتا ہے اور اس میں بھی خیال رہتا ہے کہ لفظ کا معنی سے رشتہ استوار نہ ہو پائے۔ اب ایک حبیب مکرم کی حکایت سنیئے۔ عالم، وضع دار اور شریف ابن شریف ہیں۔ درویش کی خامہ فرسائی پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ورافتہ مزاج ہے، کیسی ہی احتیاط کرے، قلم چوک جاتا ہے۔ درویش نے سادہ سا جملہ لکھا تھا، ’دھاندلی کون کرتا ہے؟‘۔ استاد تاڑ گئے۔ جملہ بدل دیا۔ لکھا ’تبدیلی کون کرتا ہے؟‘۔ ارے اس اصلاح کی داد تو نوابزادہ نصراللہ خان جنت آشیانی نے بھی دی ہوتی۔ پھڑک کر حقے کی نے ہونٹوں سے الگ کرتے اور اور اپنے مخصوص انداز میں فرماتے۔ ’دھاندلی اور تبدیلی کو ہم معنی کرنا کچھ آپ ہی کا حصہ ہے‘۔

ہمارے عزت مآب مائی لارڈ نے برسرعدالت ایک سوال پوچھا ہے کہ کیا ریاست کے کسی ادارے کا کاروبار کرنا درست ہے؟ یہ سوال تھوڑی ہے۔ اس پر تو فیض صاحب نے لکھا تھا، اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں۔ حضور جمہوریت کے سیاسی بندوبست کا معاشی زاویہ کھلی منڈی ہے۔ اگر کسی ریاستی ادارے کو کاروبار پر اجارہ مل جائے تو کھلی معیشت کا اصول ہی منہدم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اندرون ملک 25 ارب ڈالر کا مفاد ہے۔ لال حویلی والے شیخ صاحب سیانے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہہ دیا کہ تو دانی حساب کم و بیش را…. سرکاری بجٹ کی جمع تفریق سے قطع نظر، یہ تو بہت بڑا حساب کتاب ہے۔ ابھی تو ہم کم از کم کچھ ہفتوں کے لئے فی تارک وطن ایک ہزار ڈالر کی امید باندھے بیٹھے ہیں۔ کل ملا کے 14.5 ارب ڈالر ہی کا تو معاملہ ہے۔ افسوس کہ علی گڑھ کے وائس چانسلر اور ریاضی کے استاد سر ضیا الدین احمد 1947 میں وفات پا گئے ورنہ اس عبقری نے ریاضی کی باریکیاں بروئے کار لا کر ’طول شب فراق ‘ناپ دیا ہوتا۔

عزیزو، سانس کی ڈوری باقی ہے تو جینے کا کوئی بہانہ تراشنا ہو گا۔ تنکے جمع کرنا ہوں گے۔ چائے کی پیالی میں ایک طوفان آیا تھا، بارے خیریت گزری۔ ریاست نے حسب معمول پسپائی اختیار کر لی۔ غنیم کے حوصلے بڑھ گئے۔ ہمارے حصے میں یہ خوشی آئی کہ برادرم فواد چوہدری کی منصبی تحدیدات اپنی جگہ، اصول جانتے بھی ہیں اور بیان کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔ ایوان بالا کو دیکھئیے اور آصف علی زرداری کی وسعت نظر کی داد دیجئے۔ ایوان زیریں کو دیکھیے اور شہباز شریف کی بلائیں لیجئے۔ راولپنڈی میں ایک زندان ہے، اس کے لئے بس دعا کرنے کی اجازت ہے۔ 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا سوال ہے اور جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک عنقریب آن ملیں گے۔ عرض کی تھی کہ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجﺅ ۔ آپ نہیں مانے۔ التماس کی تھی کہ بدو کے اونٹ کو خیمے تک رسائی دینے سے حذر کیجئے گا۔ آپ نہیں مانے۔ آپ کو قتل عاشقاں سے منع کیا تھا، مگر آپ تو خون دو عالم اپنی گردن پر لینے کو بے تاب تھے۔ سو اب یوسف بے کارواں کو ’جمہوری عبور‘کی صحرا پیمائی درپیش ہے۔ محترم سعد رفیق کو اب سمجھ آیا کہ 2008-9 میں افتخار چوہدری کا جھنڈا اٹھانا پورس کے ہاتھیوں کی ڈربی ریس میں حصہ لینا تھا۔ پیارے خواجہ، اس پر تو ایک دہائی بیت گئی۔ اب آئندہ کی فکر کیجئے۔ بنیادی سوال اصول سے جنم لیتا ہے، ہنگامی داؤ پیچ کا انجام جمہوری عبور کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ جمہوری عبور کی آزمائش درپیش ہو تو فراست وہی ہوتی ہے جو 2006ء میں میثاق جمہوریت کی صورت ہویدا ہوئی تھی۔ میثاق جمہوریت میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی سربراہی پر حزب اختلاف کا استحقاق تسلیم کیا گیا تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ خان خاناں خود کو میثاق جمہوریت کا پابند نہیں سمجھتے۔ بس اس نقطے کو مرکزہ مان کر دائرہ لگا لیجئے۔ جمہوری عبور کی منزلیں آسان ہو جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).