مولانا فضل الرحمان اور 2018 میں ایک کے بعد ایک ناکامی


مولانا فضل الرحمن پاکستان کے مذہبی رہنما اور ایک تجربہ کار سیاستدان جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایم آر ڈی تحریک سے کیا۔ 1988 میں پہلی دفعہ قومی سطح کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ اور ایک اسلامی بنیادوں پر قائم ہونے والی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جس کے مولانا فضل الرحمن موجودہ صدر بھی ہیں) کے پلیٹ فارم سے 1988 کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اور انتخابات میں کامیاب ہو کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1988 کے انتخابات کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت میں خارجہ کمیٹی کے سربراہ رہے۔

1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے 1993 میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلامی جمہوری محاذ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

مولانا فضل الرحمن نے 2002 میں ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 24 اور این اے 25 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار کا انتخاب لڑا۔ اور دونوں حلقوں سے کامیاب ہوئے اور حلقہ این اے 24 کی نشست برقرار رکھتے ہوئے تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ اور 2002 کے انتخابات کے بعد وزیراعظم کے کے انتخاب کے لیے بھی مظبوط امیدوار کے طور پر نامزد ہوئے اگرچہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اگرچہ بعد میں 2004 سے 2007 تک قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر بھی منتخب ہوئے۔

مولانا صاحب کا یہ سیاسی سفر صرف یہاں تک ہی تمام نہ ہوا بلکہ مولانا صاحب پاکستان میں 2008 سے جاری جمہوری دور کا بھی حصہ رہے اور مارچ 2008 میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر حلقہ این اے 26 سے قومی اسمبلی کے کامیاب امیدوار منتخب ہوئے۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔

2008 کے بعد انتحابات کے بعد مولانا صاحب نے مئی 2013 کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اور نواز شریف کے دور حکومت میں کشمیر کی سپیشل کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ اور جولائی 2017 میں وزیراعظم نواز شریف کے نا اہلی کے بعد نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی مولانا صاحب کا یہ عہدہ جاری رکھا۔

2017 کے بعد جیسے ہی سال 2018 کا سورج طلوع ہوا شاید مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کا سورج غروب ہونا شروع ہو گیا۔ اور 2018 کا سال مولانا صاحب کے لیے ایک کے بعد ایک ناکامی لے کر آیا۔ جیسے ہی 31 مئی 2018 کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے مدت پوری کی مولانا صاحب کی سیاست کی مدت بھی پوری ہوگئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب نے جولائی 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 38 اور این اے 39 سے حصہ تو لیا لیکن دونوں حلقوں سے ناکامی نے مولانا صاحب کے قدم چومے۔ اور ان حلقوں کی عوام نے تبدیلی چاہتے ہوئے گزشتہ کئی سالوں سے کامیاب ہونے والے مولانا صاحب کو ہی تبدیل کردیا۔ لیکن اتنے سالوں سے کامیابی کا چہرہ دیکھنے والے مولانا صاحب کو ہار پسند نہ آئی۔

30 سال تک سیاست کا حصہ رہنے والے مولانا صاحب اتنی جلدی شکست تسلیم کر لیں؟ نہ کبھی نہیں۔ عوام نے اتنے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان کے ساتھ نا انصافی کردی لیکن مولانا صاحب آخری سانس تک اپنے حق کے لئے لڑیں گے۔ اور اسی حق کے حصول کے لیے مولانا صاحب نے انتخابات کے بعد نئی حکومت پر دھاندلی کا الزام داغ دیا۔ اور آل پارٹیز کانفرنس کا حربہ استعمال کیا اور حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی۔ اور اے پی سی میں شریک سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2018 کا بائیکاٹ بھی کیا۔ اور مولانا صاحب نے نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں کو قومی اسمبلی میں حلف نہ لینے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن مولانا صاحب باقی پارٹیز کے لوگ بھی گھر سے کھیلنے ہی آئے ہیں اس میں ان کا کیا قصور کہ آپ پہلی گیند پر ہی آؤٹ ہو گئے۔

حکومت سے مخالفت ایک الگ بات لیکن کسی کے لئے کوئی اپنی روزی روٹی کو تھوڑی لات مارتا ہے؟ لہذا مولانا صاحب کو اس کوشش میں بھی ناکامی کا چہرہ دیکھنا پڑا۔ لیکن مولانا صاحب کی کوششیں رائیگاں نہیں گئی اور وہ وقت آیا جب مولانا صاحب کو صدر کے انتخاب کے لئے اپوزیشن کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ اور مولانا صاحب خود کو صدارت کے عہدے پر دیکھنے لگے۔ ہائے۔ ! ایک معصوم سی خواہش۔ لیکن مولانا صاحب کی جیت یقینی تھی اگر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی درمیان میں نہ آئے ہوتے۔ اگر عارف علوی نہ ہوتے تو آج مولانا صاحب پاکستان کے صدر ہوتے۔ مگر افسوس ایک بار پھر ناکامی نے مولانا صاحب کے قدم چومے۔ اور مولانا صاحب 148 ووٹ لے کر ناکام ہوئے۔ او ہو! ربا میرے! ایک کے بعد ایک ناکامی۔

اتنی ناکامی کے بعد بھی جناب حوصلے بلند ہیں۔ اور مولانا صاحب کی انگلی نظر ضمنی انتخابات پر ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ مولانا صاحب دوسرے سیاسی رہنماؤں اور اے پی سی کی بجائے ضمنی انتخابات پر توجہ مرکوز کریں۔ اور عوام کو میٹرو بس، اورنج لائن، کرپشن اور غربت جیسے کسی کھوکھلے نعرے سے مطمئن کریں۔ لیکن اگر ان سب کے باوجود بھی ناکامی نے آپ کا ساتھ دیا۔ اور عوام نے آپ کو ووٹ نہ دیا تو سمجھ جائیں عوام کو آپ کا بہت خیال ہے آج بھی آپ ہی ان کے سیاسی رہنما ہیں۔ بس عوام یہ چاہتے ہیں کہ اتنی سیاسی محنت کے بعد آپ اب پانچ سال آرام کریں۔ کیوں کہ سیاست سے پہلے صحت زیادہ ضروری ہے۔ لہذا اب زندگی سکون سے گزاریں جس زندگی کے 30 سال آپ نے سیاست اور عوامی خدمت میں صرف کر دیے۔ اور آئین کے تناظر میں اتنی محنت کے بعد آرام آپ کا قومی حق بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).