بیگم کلثوم نواز: مرنے والے چلے جاتے ہیں، ندامتیں رہ جاتی ہیں


امید کرتی ہوں کہ یہ بلاگ اپنی نوعیت کا آخری ہو گا۔ خدا نہ کرے کہ ہمیں دوبارہ اس موضوع پر لکھنا پڑے۔ ابھی تو ہم سب میں واپسی کے دن بھی زیادہ نہیں ہوئے اور اس موضوع پر دوسرا بلاگ ہے۔ اب تو دل میں درد کی بھی مزید گنجائش نہیں رہی۔ یا شاید ہم نے اس کی وسعت کو انڈر ایسٹیمیٹ کر لیا ہے۔ جس دل میں بجز داغ ندامت کے ہر داغ ہو اس میں بڑی خالی جگہ ہوتی ہے مزید غموں اور آنسووں کو سمونے کی۔ خیر دعا یہی ہے کہ خدا نہ کرے ایسا ہو۔

آپ کو شاید ہمارا تھوڑا ہی پرانا بلاگ یاد ہو جس میں ہم نے اپنے پھوپھا کی وفات پر پھپھو کے غم کا ذکر کیا تھا۔ بلاگ کیا تھا۔ بس دل بیتی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ قصہ اب بھی ایک موت کا ہی ہے لیکن یہاں غم ایک جیل میں بیٹھے شوہر اور اس کی بیٹی کا ہے۔ موت تو موت ہوتی ہے۔ امیر کی ہو یا غریب کی۔ شریک حیات تو شریک حیات ہوتی ہے۔ امیر کی ہو یا غریب کی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ امیر کی ہو یا غریب کو۔ دل یونہی چیرے کھاتا ہے۔ لہو یونہی اشکوں میں بہتا ہے۔

دفتر میں بیٹھے ایک ڈاکیومنٹ پر مغز ماری کر رہے تھے کہ خبر آ گئی بیگم کلثوم نواز چل بسیں۔ خبر مصدقہ بھی تھی اور متوقع بھی۔ آخر کینسر کا مریض کتنا جیے۔ کتنی تکلیف سہے۔ خدا کو ترس آ جاتا ہے اور وہ قید حیات بند و غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

یہاں ہم کوئی سیاسی بات نہیں کریں گے۔ بہت جی دار خاتون تھیں۔ شوہر کی قید کر سیسہ پلائی دیوار بن کر آمر کے سامنے ڈٹ گئی تھیں۔ لیکن ہمارا مدعا یہ نہیں۔ ہمارا بیان تو بس اس انسانی المیے کے ارد گرد گھومتا ہے جس کو موت کہتے ہیں۔ زندگی کی سب سے تلخ اور اٹل حقیقت۔

جب ہمارے پھوپھا جان کا انتقال ہوا تو ہمارے سامنے بہت سے لوگوں کی اصلیت کھل کر آ گئی۔ بہت سے نقاب کھل گئے۔ بہت سی حقیقتیں آشکار ہو گئیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلتی تھی جس میں ان لوگوں کا ماضی میں ہم سے رویہ یاد آتا تھا اور اب کے ٹسوے دکھائی دیتے تھے۔

کچھ ایسا ہی حال آج بھی ہے۔ جھٹ آنکھوں کے سامنے ایک فلم چل پڑی ہے جس میں سب لوگوں کے پرانے بیانات دکھائی دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی ٹویٹس اور اسٹیٹس یاد آ رہے ہیں جس میں انہوں نے اس جان لیوا بیماری کو محض ڈھکوسلا کہا۔ یہاں تک کہا کہ وہ وفات پا چکی ہیں اور ان کے گھر والے ان کی لاش کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے ہسپتال کو جعلی قرار دیتے رہے۔ کچھ ناعاقبت اندیش تو ان کے کمرے تک میں گھس گئے۔ اعتزاز احسن صاحب جیسے جید سیاستدان نے بھی ہرزہ ڈھائی کی۔ عامر لیاقت صاحب نے تو اپنے ٹی وی پروگرام پر کفر کے فتوے تک چلا دیے۔ ان کے شوہر اور بیٹی گرفتاری دینے کے لئے لندن سے روانہ ہوئے اور یہاں تک کہا گیا کہ پلان کے مطابق بیگم کلثوم کی موت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ یہ باپ بیٹی واپس لندن چلے جائیں گے۔ ٹائیں ٹائیں فش!

ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بالکل بھی نہیں ہوا۔
ان کے شوہر اور بیٹی جیل کی بیرکوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ بیگم صاحبہ بھی وفات پا گئی ہیں۔ آخری وقت تک ان کو نہیں معلوم تھا کہ دونوں پیارے کس حال میں ہیں۔

مرنے والے چلے جاتے ہیں۔ ندامتیں رہ جاتی ہیں۔ افسوس رہ جاتا ہے۔ نہ مرنے والے کو بھلانا ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی ان باتوں کو جنہوں نے دلوں میں نشتر چبھوئے۔
خدا سب مرنے والوں کی مغفرت کرے اور سب زندہ رہ جانے والوں کو ہدایت دے۔ کلثوم صاحبہ ہو سکے تو سب کو معاف کر دیجئے گا۔ شاید سب میں خود معافی مانگنے کا حوصلہ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).