باؤ جی کی ڈھال


“کلثوم آنکھیں کھولو، دیکھو، باؤجی آئے ہیں”

یہ صدائیں، سابق وزیراعظم نوازشریف کی بسترمرگ پر لیٹی، اپنی شریک حیات کلثوم نواز کو کومے سے ہوش میں لانے کے لئے تھیں۔

یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف اپنی تین حکومتوں کےخاتمے، جلاوطنی اور پاناما کیس پر اتنے پریشان نہیں ہوئے، جتنا اپنی اہلیہ کی بیماری پر دکھی تھے۔ وہ بیگم کلثوم کے سرہانے کھڑے ہوتے تو ان کے ہاتھ کانپتے اور آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ کلثوم نواز سے ان کارشتہ سینتالیس برس طویل تھا، جس کے دوران اچھے برے دن دیکھے۔ اس خاتون کے چہرے پر مشفق ماؤں جیسا ٹھہراؤ اور آنکھوں میں بزرگانہ شفقت ، گہری محبت تھی۔

1999 میں مسلم لیگ کی حکومت جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی اور نوازشریف کو جیل بھیج دیا گیا۔ پارٹی بحران سے دوچارہوگئی، کوئی جیل میں گیا، کوئی ملک سے بھاگ گیا کئی روپوش ہوگئے۔ کلثوم نوازنے بڑی دلیری سے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور نوازشریف کی رہائی کیلئے فوجی حکومت کے خلاف تحریک چلائی۔ اس دوران لاہورمیں احتجاج کے دوران انہیں ملٹری پولیس کی نگرانی میں گاڑی میں بیٹھے کرین کے ذریعے تھانے میں لے جایا گیا، یہ تصویر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ کلثوم نواز گرفتار کرکے گھر میں نظربند کردیا گیا۔

کلثوم نواز گھر میں میاں صاحب کو پیار سے “باؤجی” پکارتی تھیں، وہ انہیں کلثوم اور کبھی بیگم کہتے۔ نوازشریف کے طویل سیاسی کیریئر میں کئی اتارچڑھاؤ آئے۔  کلثوم نواز نے گھر اور باہر، ہر محاذ پر اپنے باؤ جی کا بھرپور ساتھ دیا اور ہرمشکل میں انکی ڈھال بنتی رہیں۔ کلثوم کی حیثیت غیرمتنازع تھی اور پارٹی کو متحد رکھنے میں کردار ادا کرتی رہیں۔ کئی بار ذاتی طور پر مداخلت کرکے کئی سیاسی معاملات حل کرا لیے۔

گھریلو زندگی میں بچوں کی پرورش یا بڑوں کی خدمت، کلثوم نواز کا کردار بے مثال رہا۔ وہ ایک مثبت سوچ کی مالک خاتون تھیں، جنہیں کئی بار خاندان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا رہتا تھا۔ درحقیقت کلثوم جانتی تھیں کہ کون باؤ جی کے ساتھ مخلص ہے اور کون ان کا مخالف ہے۔ انہیں بے نظیر کی شہادت پر بہت دکھ ہوا، کلثوم نواز کے مشورے پر نواز شریف گڑھی خدا بخش گئے اور تعزیت کی۔ اسے ان کی سیاست میں ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔

وزارت عظمیٰ کے تیسرے دور میں وہ گھر تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ نواز شریف کی علالت اور پھر دل کی سرجری کے دوران بہت پریشان تھیں۔ گھر میں دونوں خواتین ماں اور بیوی کی دعائیں ہمیشہ نواز شریف کی ڈھال بنیں۔ سابق وزیراعظم کو اس بات کا احساس ہے۔ پاناما کیس کے آغاز پر سابق خاتون اول بہت زیادہ پریشان اور رنجیدہ تھیں۔

حکومت سے ہٹائے جانے پر انہیں آنے والے دنوں کے بارے میں ایک فکر لاحق ہوگئی۔ لیکن ان کا تعاون اور ساتھ اتنا مضبوط تھا کہ بیماری کے عالم میں بھی اپنے شوہر کی نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کی ہامی بھردی۔ اور بسترعلالت پر وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔

ایک حالیہ کتاب “سائیلنٹ پارٹنر” میں لکھا ہے کہ کلثوم اپنے شوہر کی کسی بھی مشکل میں ڈھال کا کردار ادا کرتی رہیں۔ وہ نواز شریف کی پس پردہ سیاسی مشیر تھیں۔ وہ ڈھارس بندھاتی تھیں اور انہیں پریشانی کا حل بتا دیتیں۔ انہوں نے ہمیشہ سابق وزیراعظم کو اعتماد دیا۔

لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں کئی ماہ زیرعلاج رہیں، آخری ایام کومے میں گزار دیئے۔ ان کے شوہر اور بچے مسلسل ان کی تیمارداری کرتےرہے۔ زندگی کے آخری لمحات میں وہ اپنے شوہر اور بیٹی کی قید سے لاعلم رہیں، شاید اتنا بڑا دکھ وہ نہ دیکھ سکتیں۔ لیکن وہ اپنے شریک حیات سے متعلق ایک فکر اپنے دل اور دماغ میں ساتھ لے گئیں۔

باؤ جی کا حوصلہ اور ڈھال بھی اب نہ رہی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar