مرنے والے مر جاتے ہیں


مرزا غالب کی یہ دیرینہ اور دلی خواہش تھی کہ
مجھ کو دیار غیر میں مارا،وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم

ہر عہد پہ غالب،غالب نے جب یہ خواہش کی تھی اس وقت دنیا ابھی گلوبل ویلج نہیں بنی تھی اور خبر کو دنیا کا چکر لگانے میں زمانے بیت جاتے تھے۔ غالب کو عمر کے آخری حصے میں بہت سی بیماریوں نے آ لیا تھا اور ان کے قوی بری طرح مضمحل ہو گئے تھے۔ان کے اپنے بقول وہ بستر سے اتنی دیر میں اٹھتے تھے جتنی دیر میں قد آدم دیوار اٹھتی تھی۔نیز مالی حالات بھی اتنے خستہ تھے کہ مےبھی قرض کی پیتے تھے۔ ایسے حالات میں دیار غیر میں جا کر مرنے کی خواہش کیونکر پوری ہو سکتی تھی؟ جب یہ تمنا پوری ہوتی دکھائی نہ دی تو انہوں نے اپنے وطن ہی میں باعزت طور پر مرنے کی آرزو کچھ اس طرح کی تھی۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئےکیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

مرزا کی یہ آرزو بھی پوری نہ ہوئی مگر بیگم کلثوم نواز کی پردیس میں راہی ملک عدم ہونے کی دعائیہ آرزو پوری ہوگئی۔فلک کج ادا بھی کیا کیا نظارے کرواتا ہے کہ تین بار منتخب وزیر اعظم ملک میں قید میں پڑا ہے اور ادھر دیار غیر میں انکی ہمدم دیرینہ بے کسی کے عالم میں وطن سے دور قید حیات و بند غم سے آزاد ہو جاتی ہیں۔
قید حیاتو بندغم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

مگر بیگم صاحبہ دیار غیر میں دم دینے کے باوجود اہل وطن کی طعن و تشنیع اورطنز و تعریض سے محفوظ نہ رہ سکیں۔کچھ ستم ظریفوں نے توان کی بیماری کو بھی سستی سیاست بازی کی بھینٹ چڑھا کر اپنے سیاسی قدو قامت کو اور بھی کم کردیا تھا۔اب ان کی موت پر بھی یہ سیاسی طفیلیے سب و شتم اور بازاری زبان کے ذریعے نئےگل کھلانے کو تیار بیٹھے ہیں۔اس ہرزہ سرائی اور الزام تراشی کا پہلا نشانہ لندن میں موجود ان کے غمزدہ بیٹے بنیں گے۔۔۔

بیگم صاحبہ کے سانحہ ارتحال کے موقعے پر مجھے میاں محمد شریف کی وفات کا واقعہ یاد آگیا کہ جب میاں نواز شریف کو مشرف کے آمرانہ دور میں اپنے پدر بزرگوار کی میت کو کاندھا دینے کی اجازت بھی نہیں ملی تھی۔آج بھی تاریخ نے مختلف انداز میں خود کو دہرایا ہے۔میاں صاحب کی مرنے والی رفیقہ حیات پردیس میں ہیں اور وہ خود جمہوری حکمرانوں کے عہد میں ملک کےاندر پابند سلاسل ہیں۔خبریں تو گردش کر رہی ہیں کہ شاید میاں صاحب،مرم نواز اور کیپٹن صفدر کو بیگم کلثوم نواز کی موت پر پے رول پر رہا کر دیا جائے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ اقدام یقینی طور پر حکومت کی نیک نامی میں اضافہ کرے گا۔

میاں محمد شریف کی موت کے حوالےسے مجھے تحریک آزادی،تحریک احرار کے سرخیل،مزاحمتی ادب اور زندہ و متحرک شاعری کے خالق حسرت موہانی کی داستان حیات کا ایک تلخ مگر سنہری باب یاد آیا ہے۔انگریز استعمار کےخلاف تحریرو تقریر کی پاداش میں ان کی آدھی سے زیادہ زندگی قید فرہنگ میں گزر گئی تھی۔ان کی بیٹی اور والد کی وفات کے وقت انگریز حکومت نے ان کو اس شرط پر رہا کرنے کی پیشکش کی وہ آئیندہ حکومت کے خلاف کچھ لکھیں گے نہ بولیں گے مگر اس پیکر حریت و عزم و ہمت کے پہاڑ نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تاریخ میں امرہوگئے۔

نوازشریف کو شریک حیات کے جسد خاکی کوتو شاید کاندھادینے کی اجازت مل جائےگی لیکن اس ملک کہ جس کےوہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے تھے،کے سیاہ و سفید کے مالکوں نے بیگم صاحبہ کے آخری دنوں میں میاں صاحب سے اپنی جاں بلب بیگم کی عیادت اور بیمار پرسی کا حق چھین کر کوئی صحتمند روایت قائم نہیں کی۔

بیگم کلثوم نواز اپنے اعمال سمیت اللہ کی عدالت میں پہنچ چکی ہیں۔وہ مشرقی روایات و اقدار میں گندھی ہوئی ایک تعلیم یافتہ،مہذب،ملنسار،مرنجاں مرنج،خوش شکل،خوش گفتار،خوش پوش اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ اردو ادب وشاعری سےخاص شغف تھا۔جناب نواز شریف کی سیاسی تربیت میں ان کا اہم کردار تھا۔بزرگوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے والی،شوہر کی ہر دم وفادار،اولاد سے مثالی محبت کرنے والی اور حلقہءاحباب میں مانند آفتاب و ماہتاب چمکنےدمکنےوالی خاتون اب ہم میں نہیں رہیں۔مشرف کی آمریت کے خلاف ان کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔بلا شبہ وہ بے نظیر بھٹوکے پائے کی سیاسی کارکن وقائد نہیں تھیں مگر پھر بھی بےشمار حوالوں سے ملک میں اور ملک سےباہر بہت دیر تک یاد رکھی جائیں گی۔ اس کےساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ

چلتے رہیں گےقافلے تیرے بغیربھی یہاں
اک ستاراٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا
البتہ ان کی سعادت مند اور فرمانبردار اولاد کو ماں دوبارہ نہیں ملے گی۔
ایس توں ٹھنڈی چھاں نئیں لبدی
دوجی واری ماں نئیں لبدی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).