بھائی صرف 30 روپے لگتے ہیں مڈ گارڈ پر


برسات کا موسم تھا۔ آئے دن مینہ برستا ہی رہتا۔ اس دن بھی کاشف دفتر سے نکلا تو ہلکی ہلکی رم جھم شروع ہو چکی تھی۔ اگلے سال جب یہ موسم ہو گا تو میرے پاس کار آ چکی ہو گی۔ اس نے اپنی سال خوردہ بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے سوچا۔ جب وہ مین سڑک پہ آیا تو سڑک مسلسل بارش کی وجہ سے بھیگی ہوئی تھی۔ کافی جگہوں پہ پانی بھی کھڑا ہو گیا تھا۔ لیکن ٹریفک پھر بھی کافی تھی۔ اپنی سوچوں میں گم، دل میں اس ماہ ہونے والے خر چوں کا حساب کرتے وہ آہستہ آہستہ بائیک چلا رہا تھا۔ اچانک اسے اپنے سامنے سے کیچڑ لائن کی صورت میں اپنے اوپر آتا دکھای دیا اور دوسرے ہی لمحے اس کی شرٹ اور چہرے پر کیچڑ کا پانی پڑ چکا تھا۔

اپنے اوپر پڑنے والی اس اچانک افتاد سے گھبرا کر اس نے سامنے دیکھ تو کیچڑ کی یہ بوچھاڑ سامنے والی بائیک کے پچھلے پہیے سے برامد ہو رہی تھی۔ غالباً پچھلے پہیے کا مڈ گارڈ غائب تھا اور پہیے سے اچھلنے والا کیچڑ ایک فوارے کی صورت میں اس کی تواضع کر رہا تھا۔ اشتعال کی اچانک لہر پہ قابو پاتے ہوے اس نے بائیک ایک سائیڈ پر کر لی۔ کیا بیہودہ پن ہے۔ بارش کے اس موسم میں مڈگارڈ نہ ہونا دوسروں کو عذاب میں ڈالنا ہے۔ کب یہ قوم سدھرے گی ہماری؟ بہت افسوس سے اس نے سوچا۔ گھر پہنچ کر بھی اس پہ کوفت سوار رہی۔ اپنے کمرے میں بیٹھ کر وہ یہی سوچتا رہا کہ آخر 40، 50 روپے کا خرچ بچا کر دوسروں کو تکلیف میں مبتلا رکھنا کیسی بے حسی ہے۔

دن گزرتے رہے۔ جب بھی بارش ہوتی اس کی کوفت اور غصے میں اور اضافہ ہوتا جاتا۔ بہت ساری بائیکس اس کے ساتھ یہی حرکت کرتی رہیں۔ ہر بار اس کینفرت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اگر وہ طبعاً ایک صلح جو شخص نہ ہوتا تو اب تک کسی نہ کسی سے لڑ بھڑ چکا ہوتا۔

برسات کا مو سم جب اختتام پزیر ہونے لگا تو اس کیطبیعت بھی اعتدال پہ آنے لگی۔ اگرچہ موسم اب بھی کبھی کبھی اس کا امتحان لے لیتا۔ یہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ بارش جب رک چکی تو ایک بس سٹاپ پہ موجود شیڈ کے نیچے کھڑے کاشف نے بھی گھر جانے کی ٹھانی۔ ابھی وہ اپنی موٹر سائیکل لیے مین سڑک پہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ پیچھے سے ایک بائیک والا آیا اور اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولا
”بھائی۔ صرف 30 روپے لگتے ہیں مڈگارڈ پر! دیکھیں آپ نے میرا کیا حال کیا ہے؟ “یہ کہہ کے وہ آگے بڑھ گیا۔

کاشف گم سم کھڑا اس کا چہرہ اور کپڑے دیکھ رہا تھا جہاں کیچڑ سے بنے نقش و نگار اس کا منہ چڑا رہے تھے۔
ہم لوگ زندگی میں جانے کتنے لوگوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ہر اصلاحی خیال کو پہلے اپنے اوپر لاگو کر کے دیکھیں۔ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانک لیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).